افغان صوبے ننگر ہار کے دارا لحکومت جلال آباد میں بدھ کے روز وقوع پذیر ہونے والے اندوہناک سانحے میں پندرہ قیمتی انسانی جانو ں کے ضیاع پر جتنا بھی افسوس کیا جائے وہ کم ہوگا۔جان بحق ہونے والے یہ بد قسمت افراد جلال آباد شہر میں نہ تو مفت راشن کے حصول کے لیئے جمع تھے اور نہ ہی یہ لوگ دہشت گردی کے کسی واقعے کے شکار بنے ہیں ۔ کہا جاتا ہے کہ یہ بد قسمت لوگ جلال آباد میں قائم پاکستانی قونصل خانے سے پانچ کلومیٹر کے فاصلے پر واقع ایک فٹبال سٹیڈیم میں پاکستان کے ویزے کے حصول کے لئے جمع تھے جہاں بھگدڑ مچنے کے باعث پیروں تلے کچلے گئے جن میں اکثریت خواتین اوربزرگوں کی بتائی جاتی ہے جن میں ایک ایسی نوجوان خاتون بھی جان کی بازی ہار گئی ہیں جن کا رشتہ پاکستان میں ہوا تھا اور یہ بد قسمت خاتون شادی اور رخصتی کی فکر میں ویزے کے حصول کے لئے مقتل گاہ بننے والے اس خونخوار سٹیڈیم میں موجود تھی۔ دلہن بن کر مستقبل میں پاک افغان تعلقات کی سفیر بننے والی اس خاتون کے انتقال کی خبر پانے کے بعد اسکے اہل خانہ اور سسرال پر کیا گزررہی ہوگی اس دکھ اور تکلیف کی کیفیت کو وہی محسوس کرسکتا ہے جو خود یا اس کا کوئی قریبی عزیز ایسی کیسی صورتحال سے دوچار ہوا ہو۔ اسی طرح اس افسوسناک واقعے میں جاں بحق ہونے والے دیگر افراد کے لواحقین بھی نہ جانے کیا سوچتے ہونگے کہ اللہ تعالی نے انکے پیاروں کو اتنی بڑی آزمائش سے محض ایک پڑوسی ملک کا ویزہ لینے کے بدلے میںدوچار کیا ہے۔ افغان دنیا کی وہ بد قسمت ترین قوم ہے جو پچھلی چار دہائیوں سے مسلسل حالت جنگ میں ہے جسکے نتیجے میں ا ب تک لاکھوں لوگ لقمہ اجل بن چکے ہیں ۔ نہ جانے اس بے نام جنگ وجدل میں کتنے نوجوان اپنے سہانے مستقبل کے خواب آنکھوں میں سجائے رزق خاک ہوچکے ہیں ۔ اس افراتفری اور جنگ نے نہ جانے کتنے معصوم بچوں سے انکے والدین کے سائے چھین کراور انہیں یتیم بناکر دربدر کی ٹھوکریں کھانے کے لیے غیروں کے رحم و کرم پر چھوڑ دیا گیاہے۔ ان چالیس سالوں میں نہ جانے کتنی سہاگنوں کے سہاگ اجڑ چکے ہیں ۔ نہ جانے کتنے کمر خمیدہ بوڑھے اپنے نوجوانوں کے لاشیں اٹھااٹھا کر دفنا چکے ہیں اور شاید ان مرنے والوں میں ایک بڑے تعداد تو ایسوں کی بھی ہوگی جنہیں شاید گور و کفن بھی نصیب نہیں ہوا ہوگا۔ ان چالیس سالوں میں افغانستان کا شاید ہی کوئی چپہ ایسا ہوگا جو انسانی خون سے رنگین نہیں ہوا ہوگا۔ شہر ،قصبات اور دیہات تو ایک طرف اس جنگ نے تو تورا بورا کے پہاڑوں اور غاروں اور دشت لیلیٰ کے ریگزاروں کو بھی نہیں بخشا۔ کیا کوئی معمولی احساس رکھنے والاانسان بھی شبرغان کے کنٹینروں میں زندہ درگور کیے جانے والے انسانوں کے دکھ اور غم کو بھلا سکتا ہے ،کیا قلعہ جنگی میں کھیلی جانے والی خون کی ہولی کو آنکھیں بند کرکے فراموش کیا جاسکتا ہے۔کیا سوویت یلغار کے دوران کھیتوں اورباغات کو سرخ ٹینکوں سے تخت و تاراج کیے جانے، امریکی کروز میزائلوں، ڈیزی کٹر بموں کا نشانہ بننے والوں ، باراتوں اور جنازوں پر فرینڈلی بمباری میں ہنستے بستے گھروں کو ماتم کدہ بنانے کے دلخراش واقعات کوئی بھلا سکتاہے ۔ کابل کو کھنڈرات میں تبدیل کرنے کی ہولناک خانہ جنگی ہو یا پھر قندہار ، جلال آباد ، ہرات اورمزار شریف میں دلوں کو دہلا دینے والے دہشت گردی کے سانحات ہوں یہ افغانستان کی چالیس سالوں کی وہ داستان خو نچکاں ہے جس کا نہ کوئی عنوان ہے اور نہ کوئی اس تباہی و بربادی کی ذمہ دار ی قبول کرنے کیلئے تیار ہے۔ پاکستان نہ تو یورپ اور امریکہ ہے اور نہ ہی دبئی اور جاپان ہے جہاں جلال آبادمیں ویزے کے کئی دنوں سے منتظر ہزاروں افغان جانے کیلئے بے تاب تھے بلکہ یہ وہ لٹے پٹے بے سرو ساماں انسان تھے جو اپنی بیماریوں کا درمان ڈھونڈنے کی فکر و جستجو میں پاکستان آنا چاہتے تھے ۔ ان میں بعض بدقسمت انسان ایسے بھی تھے جو پاکستان میں مقیم اپنے عزیز و اقارب اور رشتہ دار وں کے ہاں جاکر انکی غمی خوشی میں شریک ہونا چاہتے تھے۔ لہٰذا اس تمام بحث اور صورتحال کو مد نظر رکھتے ہوئے جہاں افغان حکومت کو گزشتہ روز کے اندوہناک واقعے کی روک تھام کےلئے پیشگی حفاظتی انتظامات کرلینے چاہئے تھے وہاں مستقبل میں اسی طرح کے کسی دلخراش سانحے سے بچنے کے لئے بھی افغان حکومت کو نہ صرف جلال آباد بلکہ کابل،قندہار اور دیگر شہروں میں قائم پاکستانی قونصل خانوں میں بھی اپنے شہریوں کے تحفظ اور ویزے کے حصول کی سہولیات کا بندوبست کرناچاہئے۔ اسی طرح حکومت پاکستان سے بھی یہ توقع ہے کہ وہ بھی افغانستان کے ساتھ صدیوں پرمحیط مذہب،ثقافت اور تاریخ کے مشترکی رشتوں کو مد نظر رکھتے ہوئے افغانوں بالخصوص بیماروں،معذور افراد،خواتین ،بچوں اور بزرگوں کی دو طرفہ آمد ورفت میں ہرممکن سہولیات کی فراہمی کو یقینی بنائے گی۔