اس شہرِ سبزہ و گل میں بہت سے مقامات ایسے ہیں جن کے نام ابھی تک نہیں رکھے گئے ۔ہر چند کہ پبلک کے ہاں ان میں سے ہر مقام کا ا پنا نام ہے ۔ ان مقامات کو لوگ اپنے نام سے پکارتے ہیں۔ چلو اس حد تک تو بات درست ہے کہ سرکاری نہ سہی عوامی طور پر سہی یہ جگہیں کسی نہ کسی نام سے موسوم ہیں۔ مگروہ نئے تعمیر شدہ پوائنٹ جن کا ابھی تک عوام نے بھی کوئی نام نہیں رکھا سرکاری طور پران کے نام رکھے جائیں۔ مگر سرکار کوکچھ اور کام ہیں جن کی وجہ سے انھیں سر کھجانے تک کی فرصت نہیں ہے۔ لیکن اپنا کوئی مشیر اس کام کے لئے اگر اپوائنٹ کرلیں تو کیا اچھا ہو ۔وہ مشیرِ کار شہر کے ان مقامات کی فہرست تیار کرے جن کے اب تک سرکاری تو چھوڑ عوامی نام تک نہیں رکھے گئے۔ پھر وزراءکے اجلاس میں شہرِ یاراں کے ان چوک اور چورستوں، گلی اور گلیاروں، سڑکوں کے نام رکھ لئے جائیں ۔ اب نامور مصنف اور سرکاری اہل کار پطرس بخاری جو پشاور کے باشندہ تھے اور اقوامِ متحدہ میں پاکستان کے مندوب رہے ان کے نام پراسلام آباد کی ایک سڑک کانام ہے۔مصنف موصوف کے نام پر چونکہ آل ریڈی ایک سڑک کو منسوب کر دیا گیا ہے ۔جو ادیب و شاعر یا کسی فن میں کمال حاصل کرنے والے خواہ کھلاڑی ہیں یا کسی بھی میدان سے تعلق رکھتے ہیں ان کے نام پر ان مقامات کے نام رکھے جائیں۔ تاکہ ان گذری ہوئی شخصیات کو یاد کرنے اور یاد رکھنے کا ایک بہانہ مل جائے۔ لیکن جو ماہرین ِ فن اس وقت زندہ ہیں ان مشہور لوگوں اور کارکن شخصیات کے نام پر بھی اگر شہر کی مشہور عمارات کے نام رکھ دیئے جائیں تو اس لئے اچھا ہے کہ فنکار اپنے جیتے جی اپنی پذیرائی دیکھ لیں۔ کیونکہ ہمارے ہاں سرکاری رسم ہے کہ جب کوئی نامور بندہ مر جاتا ہے تو پھر جاکر اس کے نام سے کسی جگہ کانام رکھ کر اپنے آپ کو مثالی مملکت کا رول ماڈل کردار ثابت کرنا ہوتا ہے ۔” عمر بھر سنگ زنی کرتے رہے اہلِ وطن ۔ یہ الگ بات کہ دفنائیں گے اعزاز کے ساتھ“۔جیتے جی اگر کسی کی قدر افزائی ہو جائے تو کتنا زبردست کام ہے ۔کیوں نہ ٹھوس کام کئے جائیں۔ درخت کی شاخوں کو پکڑا جائے جڑ کو نہ پکڑا جائے۔اب اسی طرح کا ایک چوک ہے جس کے مختلف نام ہیں۔ جس کا جو جی چاہتا ہے وہ اس کا اپنا سا نام رکھ دیتا ہے ۔ کوئی اسے گول چوک کہتا ہے ۔کوئی اس کو کبوتر چوک کے نام سے یا دکرتا ہے ،پھر کچھ ہیں جواس کو وہ نام دیتے ہیں جو ان کے من پسند ہیں ۔ اگر اس چوک کے پاس کوئی مشہور عمارت ہے یا کوئی مشہور مچھلی فروش کی دکا ن ہے یا چائے پینے پلانے کا ڈھابہ ہے تو وہ لوگ اس چوک کو اپنی اپنی دکان کے نام کے ساتھ پکارتے ہیں ۔ یہاں شادی ہال بھی ہیں ۔شادی کارڈوں میں یہاں کے شادی ہال کا نام بطور اس چوک کے لیا جاتا ہے ۔ مجھے یادہے کہ جب یہ چوک دلہ زاک روڈ اور رنگ روڈ کے سنگم پر بنا تھا تو وہ پچھلی حکومت کے آخر آخر کا زمانہ تھا۔ اس حکومت کے اختتامی دن تھے ۔ اس لئے ان کو ہر کام میں جلدی تھی ۔ بہت سی جگہوں کے افتتاح بھی انھوں نے جلدی میں کر لئے تاکہ یہ پل اور یہ سڑک ان کے دور کے یادگار کارناموں میں شمار ہو۔ بی آر ٹی کے اوپر جی ٹی روڈ کا پل ایک مثال ہے ۔پھر میں جس کا ذکر کر رہاہوں یہ چوک ایک وزیر کے نام پر رکھا گیا۔ عالمزیب چوک ۔ پھرباقاعدہ نام کی تختی بھی لگائی گئی ۔ لیکن اس کے بعد چونکہ صوبائی حکومت کاٹائم جلد ہی اپنی میعاد پوری ہوجانے پرپورا ہو گیا ۔ اس لئے اس کے بعد پچھلی حکومت اس نام کی تختی کی حفاظت کرنے سے قاصر رہی ۔ نئی حکومت کو اس بورڈ سے دلچسپی نہ تھی سو یہ تختی آہستہ آہستہ اتار دی گئی ۔اب اسے کبوتر چوک کہہ لیں یا گول چوک آپ کی مرضی ۔ یا اس کو کسی اور نام سے پکار لیں۔یا ان ناموںسے یاد کر لیں جوعمارتیں اس چوک کے گول دائرہ میں کھڑی ہیں ۔پیچھے سنا تھا کہ لیڈی ریڈنگ ہسپتال کا نام تک تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ۔مگر کسی مشہور نام سے وابستہ جگہ کا نام بدل دیں تو بھی وہ اسی پرانے نام سے پکاری جاتی ہے۔ نئے نام کو لوگوں کی زبان پر آنے میںسو پچاس سال لگتے ہیں ۔جب پچھلی نسل مٹتی ہے او رنئی نسل آتی ہے تو اس عمارت کا نیانام انھیں کے ہونٹوں سے سناجاتا ہے۔شہر میںاس کی درجنوں مثالیں ہیں ۔