آدمی کیا کرے اور کیا نہ کرے ۔ کون سا کام کرے کون سا چھوڑے ۔کون سا آج کر لے کون سا کل پر چھوڑ دے ۔کاموں میں ضروری کاموں کو پہلے رکھنا پڑتا ہے۔پھر اگر ضروری نہ ہوں تو جوآسان قسم کے کام ہیں ان کو ٹاپ ٹین میں ڈالنا پڑتا ہے ۔سمجھ نہیں آتا کہ اتنے کم وقت میں کس کام کو پہلے ہاتھ ڈالیں اور کس کو بعد میں اپنی پکڑ میں لیں۔جتنا جتنا شہر ترقی کر رہاہے ‘شہریوں کے پاس وقت کی کمی اتنی زیادہ ہو رہی ہے مگر بعض اوقات کاموں کی یہ فہرست تتر بتر ہو جاتی ہے ۔پھر سارے کام اس وقت ادھورے رہ جاتے ہیںبلکہ جو ضروری کام ہوتے ہیں وہ بھی چھوڑنا پڑتے جاتے ہیں۔ گھر میں ایمرجنسی کا نفاذ ہو جاتا ہے ۔خدا نہ کرے کہیں سے کسی کے انتقال کی اطلاع آ جاتی ہے ۔بلکہ ایسا بھی ہوا کہ ایک ہی ٹائم دو میتوں پر نمازِ جنازہ کا ایس ایم ایس آیا ۔پھر اس پر ستم یہ کہ ان عزیزوں اور دوستوں کے دو قبرستان بھی آمنے سامنے ۔ ایک عزیز ترین دوست اور دوسری طرف خون کی رشتہ داری۔اب آدمی کس طرف جائے کس طرف نہ جائے ۔ اگر جائے کون سے گھر کی طرف جائیں ۔ایک کو شادی بیاہ میں کتنا وقت دیں اور دوسرے کے غم میںکتنی دیر کے لئے شریک ہوں۔ چلو خوشیاں تو پہلے سے کہہ کر آتی ہیں لیکن اس کے باوجودشادی بھی اچانک آ جاتی ہے ۔فون آتا ہے کہ آئی ایم سو سوری انتہائی معافی چاہتاہوں ۔ مجھے ابو نے لسٹ دی تھی کہ فلاں فلاں کو جاکر شادی کارڈ دے آ¶۔ مگر اب دیکھا ہے تو میرے شاپر میں آپ کا کارڈ باقی پڑا ہوا تھا ۔جو مجھ سے چھوٹ گیا ہے۔آج رات کو فلاں جگہ میرے بھائی کا ولیمہ ہے ۔مجھے ابو نے یاد دلایاتو مجھے یاد آیا۔ سو آپ اگر فون پر دعوت قبول کریں تو آپ کا احسان ہو گا۔وگرنہ میں خود حاضرہوتا ہوں۔میں نے فوراً کہا کوئی بات نہیں ایسا ہو جاتا ہے ۔مجھے دعوت نامہ کی تصویر واٹس ایپ کر دو میں پہنچ جا¶ں گا۔ پھر میں رات کو پہنچ بھی گیا۔ وہاں دولھا کے والد نے دیکھا تو کہاکیوں گھر والے نہیں آئے۔ کیسے کہتا کہ میرے پاس اتناوقت ہی نہیں تھا کہ میں گھر جاتا اطلاع کرتا۔ میں تو باہر ہی سے اکیلا چلا آیا ہوں۔ پھر گھرمیں اگر کہہ بھی دیتا توخواتین کااتنے شارٹ نوٹس میں کسی شادی پرجانا تو بالکل ہی ناممکنات میں سے ہے۔سو بکھیڑے ہیں جو ہم جیسے لوگوں کو نپٹانا ہوتے ہیں۔ خدا تعالیٰ سب کو محفوظ رکھے ۔
اچانک جب کسی کو دیکھنے ہسپتال کے ایمرجنسی وارڈ میں جانا پڑ جاتا ہے ۔تو کاموں کی بنائی ہوئی اس فہرست کا شیرازہ بکھر جاتا ہے ۔پھر ایک اتوار کا دن آتا ہے کہ چلو ہمیں ریلیف ملے گا مگر شادی کارڈ سامنے پڑے ہوتے ہیں جن میں کسی ضروری شادی کا انتخاب کرنا پڑتا ہے جہاں سے چھٹکارا نہ ہو وہاں جانا پڑتا ہے کسی جگہ بیٹے کو بھجوا دیتے ہیں ۔چلو ہماری جگہ حاضری لگا دے گا ۔ مگراس کام کے لئے ضرور ی ہے کہ بیٹا بھی عاقل و بالغ ہو ہر چند کہ صاحبِ روزگار نہ ہو فارغ ہو ۔مگر دوسری طرف مصیبت یہ کہ ا س فرزند ارجمند کے آگے اپنے سے تعلقات ہوتے ہیں ‘ فرماتا ہے میں نے کسی او ر ولیمہ میں جانا ہے ۔سو اب بندہ کیا کرے ۔بہت پھونک پھونک کر قدم رکھنا پڑتا ہے ۔ معاشرے میں زندگی گزارنا اتنا آسان نہیں۔ ملنا ملانا پڑتا ہے ۔شادی بیاہوں میں دوسرے کے غم کے موقع پرشریک ہونا پڑتا ہے ۔ایک کام کر لو تو سکون کی زندگی حاصل ہو جائے یا سارے کر لو تو زندگی آسان ہو جائے ایسا نہیں ۔یہاں نیا دن چڑھتا ہے تو نئی مصروفیات آڑے آ جاتی ہیں۔ پھر آگے پیچھے سے گلے شکوے وصول ہونا شروع ہو جاتے ہیںکہ یہ میل جول کا بندہ نہیں ۔ساری جگہوں پر جاتا ہے ہمارے پروگرام میں شریک نہیں ہوتا۔ایسی کیفیت میں اپنے اوپر ترس آنا شروع ہوجاتا ہے ۔یا اللہ کیا کروں کیانہ کروں ۔ ناحق کی الزام تراشیوں کا سلسلہ شروع ہو جاتاہے ۔پھر ایسا ویسا ۔ کبھی تو یوںکہ رکنے کانام نہ لے ۔ایسے میں بندہ کادماغ کام کرنا چھوڑ دے تو ایسا ہونا عین ممکن ہے ۔اس لئے بیچ کی راہ اختیار کرنا پڑتی ہے ۔پھر دوسری طرف فاصلے بھی بہت زیادہ ہو چکے ہیں۔ لوگ اندرون ِ شہر سے بیرونِ شہر منتقل ہو چکے ہیں ۔ کوئی شہر کی وسعتوں میں کہاں کھو کر رہائش پذیر ہے تو کوئی کہاں رہ رہاہے ۔ہمارے جیسا بندہ تو بیڈ منٹن کی چڑیا کی طرح کی زندگی گزارنے پر مجبور و مقہور مردود ہو جاتا ہے ۔یہاں سے بھی دھپڑ او رجہاں جائے وہا ںسے بھی بے رخی کا چانٹا رسید ہوتا ہے ۔ دائیں بائیں کے رقص میں مبتلا ہونا پڑتا ہے ۔کیا زمانہ تھا جب ہم فارغ ہوتے تھے ۔وہ زمانہ یاد آتا ہے تو دل سے ایک ٹھنڈی سی آہ اٹھتی ہے ۔لیکن اگر آپشن دی جائے کہ اسی فراغت والی زندگی میں واپس جانا چاہتے ہو تو مجھ جیسا مصروف آدمی کبھی نہیں جائے گا کیونکہ مصروفیت کی موجودہ روزمرہ کی زندگی میں بعض اتنے پیارے لوگوں کا ساتھ حاصل ہے کہ پیچھے تو کیاشہر سے باہر بھی نہ جایا جائے کیونکہ پرانی زندگی میں یہ قدردان نہیں تھے جومصروفیت کی اس زندگی میں ملے ہیں ۔ان کے بچے جئیں جو ہم جیسوں کی عزت کرتے ہیں ۔