انتہاپسندی اور میانہ روی کیا ہے؟ یہ ایک عقیدہ، نظریہ اور طرز فکر بھی ہے اور رویہ، طریقہ اور طرزعمل بھی۔ ایک طرف کےلئے انتہاپسند دوسری طرف کےلئے عموماً ہیرو ہوتا ہے۔ مختصراً بات کریں تو انتہاپسندی اعتدال اور میانہ روی کا الٹ ہے۔ انتہاپسندی نارمل نہیں بلکہ خلافِ معمول اور غیر معمولی سوچ اور رویہ ہے۔ انتہاپسندی کسی بھی شکل میں ہو، سیاسی ہو یا غیر سیاسی، نظریاتی ہو یا عملی، معاشرے میں امن وسکون تباہ کرتی اور ظلم و فساد کا باعث بنتی ہے۔ اس کے برعکس جہاں اعتدال اور رواداری کا دور دورہ ہو، وہاں محبت، استحکام اور خوشحالی پھیل جاتی ہے۔ انتہاپسند ہر معاشرے میں پائے جاتے ہیں۔ اسلئے اسے کسی خاص گروہ، پارٹی اور نسلی، لسانی اور علاقائی قومیت سے نتھی کرنا بالکل غلط اور نامناسب ہے۔ انتہاپسندی ایک عالمگیر مسئلہ ہے۔ چنانچہ دنیا کو محبت اور امن کا مرکز بنانے کےلئے انتہاپسندوں کی پہچان، علاج اور کایاپلٹ ضروری ہے۔اسلام اعتدال اور عدل کا حکم دیتا اور ظلم و انتہاپسندی سے منع کرتا ہے۔ اللہ تعالیٰ مسلمانوں کو امت وسط یعنی معتدل امت کہتا ہے اور انہیں عدل کا حکم دیتا ہے اور کہتا ہے کہ کسی گروہ یا قوم کی دشمنی بھی تمہیں عدل سے اعراض پر مائل نہ کرے۔ اگر کوئی فرد، گروہ یا قوم اپنے ذاتی، گروہی اور قومی مفاد کےلئے اعتدال اور عدل کی راہ چھوڑتا اور انتہاپسندی اختیار کرکے خود پر یا کسی اور پر ظلم کرتا ہے تو اسلام میں اسے پسند نہیں کیا جاتا۔اس کے باوجود مگر افسوس ہے کہ ہمارا معاشرہ اعتدال، رواداری اور عدل کا نمونہ بننے سے ابھی کوسوں دور ہے۔میانہ روی کو چھوڑنے والے افراد افراط و تفریط سے کام لیتے اور اعتدال و توازن سے محروم ہوتے ہیں۔ اپنے گروہ اور رہنما کی محبت و حمایت ہو یا کسی دوسرے سے نفرت و مخالفت، یہ اس میں نارمل، معتدل اور متوازن سوچ اور رویہ نہیں دکھاتے بلکہ انتہا پر نظر آتے ہیں۔یہ معاشرے میں تبدیلی و اصلاح کی خاطر پرامن قانونی، آئینی، جمہوری اور مرحلہ وار جدوجہد پر یقین نہیں رکھتے اورتشدد کو واحد حل سمجھتے ہیں اور فوری نتائج چاہتے ہیں۔ میانہ روی کو چھوڑنے والے برداشت، وقار، احترام اور دلیل پر مبنی گفتگو نہیں کرسکتے ۔یہ برداشت اور رواداری کو کمزوری گردانتے ہیں۔ قانون ہاتھ میں لیتے ہوئے یا تو خود مدعی، وکیل اور منصف بن کر ماورائے قانون قدم اٹھاتے ہیں اور یا ایسا کرنے والوں کو ہیرو سمجھتے ہیں، یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ انتہاپسند افراد اپنے اصلی مسائل، اہداف اور لائحہ عمل کی حکمت اور ممکنہ نتائج سے بے خبر یا جزوی طور پر ہی آگاہ ہوتے ہیں۔ یہ جذبات اور ردعمل کی نفسیات کا شکار ہوتے ہیں۔یہ اپنے رہنماو¿ں کو نجات دہندہ جبکہ باقی رہنماو¿ں کو جھوٹے، مکار، چور، ڈاکو اور غدارسمجھتے ہیں ۔میانہ روی اور اعتدال کوچھوڑنے والے اکثرعوامی رائے یا جمہوری اور انتخابی نظام کے بھی قائل نہیں ہوتے۔اعتدال سے عار ی لوگ دلائل کے ساتھ کسی شخص، عمل یا واقعے تک اپنی رائے محدود رکھنے کے بجائے اکثر جنرلائزیشن کرتے اور سویپنگ ریمارکس دیتے ہیں مثلاً یہ کہ اجی چھوڑیں سب لوگ جھوٹے ، بددیانت اور مفاد پرست ہیں۔یہ ہر معاشرے میں ہوتے ہیں اور ہمہ وقت سازشی نظریات پھیلاتے رہتے ہیں۔یہاں یہ امر قابل ذکر ہے کہ یہ افراد قطع نظر قوم و ملک کے ہر جگہ موجود ہوتے ہیں چاہے وہ ترقی یافتہ یورپی ممالک ہیں یا پھر پسماندرہ تیسری دنیا کے ممالک۔