سیزر تم فانی ہو

ہمارے بچے جواں ہوں گے ۔ان کی شادیاں ہوں گی ۔ان کو خوشیاں ملیں گی۔جانے ہم اس وقت کہاں ہوں گے۔ہمارے پوتے پوتیاں نواسے نواسیاں خوشی سے شاداں ہوں گے ۔مگر ہم کہاں ہوں گے۔کبھی یہ سوچ دماغ کو گھیرتی ہے تو دل مغموم ہو جاتا ہے ۔مگر جب دل کو خیال دامن گیر ہو تا ہے تو پھر تسلی ہو جاتی ہے کہ کیاہمیں نے دنیا کا ٹھیکہ لے رکھا ہے ۔بہت سے آئے بہت سے گئے ۔ جو کل نہ تھا وہ آج نہیں اور جو آج ہے کل نہ ہوگا ۔ مگر وقت ہوگا جواب ہے پہلے بھی تھا۔آدمی مسافر ہے آتا ہے جاتا ہے ۔دنیا سرکاری ریسٹ ہا¶س ہے ۔ دو ایک روز کے لئے مہمان یہاں معلوم نہیں منزل ہے کہاں۔ہر ایک کو باری دینا ہے ۔ کون بھلا یہاں مستقل رہاہے ۔بہادر آئے رستم اور رستم ِ زماں رستم ِ ہند نہ جانے کون کون سے طورسم خان پھنے خان مگر چلے گئے ۔کوئی بیماری آزاری میں کوئی یونہی بیٹھے بیٹھے کوئی لیٹے لیٹے کہ رات آنکھ جو لگی تو صبح باقی سب کی آنکھ کھلی مگر اس کی آنکھ نہ کھلی۔وہ ہمیشہ کو اداسی کی شال لئے نامعلوم مقام کی طرف منتقل ہوگیا۔مصر کے مشہورِ زمانہ بادشاہ فرعون اوربادشاہ قیصرِ روم کوئی بھی تو نہ رہا۔ ” زمانے نے مارے جواں کیسے کیسے ۔ زمیں کھا گئی آسماں کیسے کیسے “۔” نہ گورِ سکندر نہ ہے قبرِ دارا۔ مٹے نامیوں کے نشاں کیسے کیسے “( آتش)۔ آدھی دنیا کو فتح کرنے والا سکندر بادشاہ عین جوانی میں دنیاسے گیا مگر اس کے دونوں ہاتھ خالی تھے ۔ وہ عیش و عشرت رعب و دبدبہ کچھ بھی تو نہ رہا۔ ” آفاق کی منزل سے کون گیا سلامت ۔ سامان لٹا راہ میں یاں ہر سفری کا “( میر)۔سہراب پہلوان نہ رہا کہ اور نہ ہی قارون باقی ہے جو دولت میں اکیلا مالدار تھا۔وہ تو اپنے خزانے سمیت زمین میں دھنس گیا تھا ۔اس کا خزانہ اتنا تھا کہ اس خزانے کی صرف چابیاں ہی چالیس اونٹوں پر لادی جاتی تھیں۔کہاں ہیں ان کی قبریں کون جنازے میں تھا ۔کس نے دفنایا کس نے ان کی چتا کو آگ دکھلائی ۔ آج کسی ایک کو بھی ان میں سے کسی ایک کاحال بھی معلوم نہیں ۔۔بادشاہو ں کی آنکھوں میںجلتی انگارہ سلائیاں پھیر کر ان کو اندھا کر دیا گیا۔” شہاں کہ کحلِ جواہر تھی خاکِ پا جن کی ۔انھیں کی آنکھوں میں پھرتی سلائیاں دیکھیں“ ( میر)۔۔ جب زور نہیں رہتا زر نہیں رہتا خوبصورتی اور جوانی ناپائیدار ہے تو کیا باقی ہے ۔بادشاہ آئے چلے گئے ۔” آتے ہوئے اذاں ہوئی جاتے ہوئے نماز ۔اتنے قلیل وقت میں آئے چلے گئے“ ۔جب حال یہ ہے تو مستقبل کیا ہوگا۔ کاہے کا غرور و تکبر۔جوانی عارضی ہے ۔مگر جوان سمجھتے ہیں ہمیشہ جوان رہیں گے۔ ان کا تو دھیان ا س طرف بھول کر بھی نہیں آتا کہ ہم نے ضعیف و نزار ہونا ہے ۔یہ ضعیفی تو نظر آنے والی چیز ہے ۔جو نظر نہیں آتا وہ یہ ہے کہ بعض تو بوڑھے بھی ہو نہیں پاتے او ربعض جوان نہیں ہو سکتے۔ آتے تو ترتیب سے ہیں مگر جاتے بغیر ترتیب کے اور بغیر نمبر کے ہیں۔” پھول تو دودن بہارِ جانفزا دکھلا گئے ۔ حسرت ان غنچوں پہ ہے جو بن کھلے مرجھا گئے“ ۔” مختصر سی ہے یہ گل کی داستاں۔ شاخِ ہستی پر کھلا مرجھا گیا“۔ ایسی کلیاں بھی ہیں جو پھول بن نہ سکیں پوری کائنات کی میعاد چنگاری کا نظر آنا او رغائب ہونا ہے ۔جب اتنی ناپائیداری ہو تو میر نے تو کہنا ہی ہوگا کہ ” ہستی اپنی حباب کی سی ہے ۔ یہ نمائش سراب کی سی ہے “۔خواجہ میر درد فرماتے ہیں ” غنچہ شگفتہ ہووے ہی ہووے کہ اس میں درد۔دیکھا چمن میں جا کے تو کچھ اور ہی رنگ ہے “۔” گل کو ہوتا صبا قرار اے کاش ۔ رہتی ایک آدھ بہار اے کاش“۔( میر) اس شعر میں تو پوری کائنات کا وقفہ زندگی صرف ڈیڑھ دن کہا گیا ہے ۔” عمرِ دراز مانگ کر لائے تھے چار دن ۔دو آرزو میں کٹ گئے دو انتظار میں“( بہادر شاہ ظفر) یہاں عمر کو چارروزہ کہا گیا ہے ۔دنیاکے دانشور اس پرمتفق ہیں کہ یہ جہان چند روز کاہے کچھ بھی پائیدار نہیں ۔سیزر بادشاہ اپنے ساتھ آدمی رکھتا تھا۔ جو اسے وقفے وقفے سے یاد دلاتا ” سیزر تم فانی ہو“۔