صفائی کے عملے کی کارکردگی میں شک نہیں ۔ قابلِ تعریف کام ہو رہاہے ۔مگر وہ اس علاقے کی طرف بھی بھرپور توجہ دیں میں جس کامقدمہ اس کالم میں لایا ہوں۔اندرونِ شہر خاص پشاور کا مرکز ۔جہاں گاڑی میں جانا خواہ دو پہیوں کی ہو بہت گراں ہے۔ رش کا ایک عالم ہے۔ یہاں پیدل بھی بہت مشکلات پیش آتی ہیں ۔ کہیں گاڑیاں ہیں کہیں منی ٹرک ہیں کہیں لوہے کی بنی تین پہیوںکی ہتھ ریڑھیاں ہیں۔ جن میں گاڑیوںسے سازو سامان اتار کر ڈالا جاتا ہے۔ یہ مال انھیں گلیوں کے مکینوں کے گھروں کی نچلی منزلوں میں باہر بازار دکانداروں کے گوداموں میں ٹھونسا جاتاہے ۔وہ گلی بہت صاف ستھری ہے کیونکہ وہاں ناظم کی رہائش ہے۔ مجھے یاد آیا کہ بیرونِ شہر کی ایک گلی میں سیاسی جماعت کے رہنماکی رہائش تھی وہاں پورا دن صفائی ہوتی رہتی ۔ کیونکہ صاحب حکومت میں وزیر تھے ان کی گلی کے علاوہ دوسری گلیاں گند سے اٹی ہوتیں۔ وہاں صفائی کے عملہ کو تلاش کرنے کےلئے آنکھیں جیسے ترس جاتی تھیں۔ یہاں اندرونِ شہر ہماری گلی میں بھی عملہ صفائی کو دیکھنے کو نگاہیں دور تک جاتی ہیں مگر ناکام بے نام واپس آتی ہیں۔پہلے زمانہ اگر اچھا نہیں تھا اور عملہ درست نہ تھا۔ مگر وہ وقت یاد ضرور ہے۔ جب منہ اندھیرے اندرونِ شہر جھاڑو کی کشا کش سے آنکھ کھل جاتی تھی۔ایک خاتون سرکاری ملازمہ اس قطار میں چار پانچ گلیاں صاف ستھری کر کے چلی جاتی ۔ جب سے ڈبلیو ایس ایس پی ایجادہوا او راس میں نیا عملہ بھرتی ہوا تب سے معاملہ اگر بہتر ہوا تو اس کو تسلیم کرنے میں حرج نہیں ۔ مگرپھر اسے اگر کام چوری کا نام دیا جائے تو شاید بات سمجھ میں آ جائے ۔کیونکہ یہ یہ لوگ سڑک پرسے صفائی کر کے چلے جاتے ہیں ۔باہر ایسا کوئی بورڈ نہیں لگا جس پر لکھا ہو گلی کے اندر آنا منع ہے ۔یہ جھاڑو لے کر گلی میں اندر نہیں آتے۔گلیاں گند سے اٹی رہتی ہیں ۔ بلکہ گلی کے باہر بھی بعض مقامات پر کوڑا پڑا رہتا ہے ۔ یہ بہت گنجان آباد اور رش والا علاقہ ہے ۔جہاں یکہ توت دروازے کے اندر مارکیٹ کے بعد ایک اور مارکیٹ ہے۔ شہریوں نے گھروں کو ڈھا کر اپنے لئے مارکیٹ پہ مارکیٹ بنا رکھی ہے ۔یہاں صبح کے وقت دروازے کے باہر کھڑی گاڑیاں ٹریفک پولیس کی آنکھوں کے سامنے اندر آتی ہیں۔ چالان ہو گا پھر گاڑی نیچے چلی جائے گی۔ گاڑی سے سامان اتارا جائے گا۔ ڈرائیور دکان کے مالک سے چالان کی رقم لے گا۔پھر گاڑی وہیں کھڑی رہ جائے گی راستہ بند ہو جائے گا۔ یہ روز ہوتا ہے۔گاڑیاںٹرک وغیرہ جس وقت جی چاہے بیرون شہر سے اندر آتے ہیں ۔گلی تو چھوڑباہر سڑک پر بھی گند پڑا ہے ۔بچوں کے پیمپر ہیں جوس کے ڈبے ہیں خالی شاپر ہیں اور جانے کیا کیا گند گریل آنکھوں میں دکھن کا باعث ہے ۔سڑک کا حال یہ ہے کہ عین درمیان میں سے کھدائی کرکے پائپ ڈالے گئے تو سرکاری لوگ یونہی بھرائی کر کے بھاگ گئے ۔یہ جگہ محکمہ آثارِ قدیمہ کی کھدائی کا منظر پیش کرتی ہے۔ یہاں ایک ڈھیر تھا جو چھ دہائیوں سے یہاں موجود تھا ۔پھر یہاں سے اٹھا دیا گیا ۔اب قریب چڑھائی کے قریب منتقل کر دیا گیا ہے ۔ یہاں پہلے ایک بڑا ڈمپر رکھا تھا وہ بھی نہ رہا ۔ یہاں چوک ہے ۔لوگوں نے یہاں سڑک پر گند پھینکنا شروع کر دیا ہے ۔اتنا گند ہو جاتا ہے کہ بیچ سڑک آنے نہ پائے اس کوشش میں کوڑا ایک قطار میں نیچے چلا آتا ہے ۔یہاں ہر گلی کے باہر کوڑے کا ڈرم پڑا ہوتا تھا ۔ گلیوں کے رہائشی یہاں ڈسٹ بن میں گند ڈال دیتے۔ مگر اب وہ ڈرم غائب ہیں ۔مگر صفائی کا عملہ دور دور صفائیاں کر کے بھاگ جاتا ہے ۔ ایک اہلکار باقاعدہ اپنے عملے کی کارگزاری کی موبائل سے مووی بناتاتصویریں لیتا ہے ۔جو ظاہر ہے ان حالات میں دکھاوا ہی تو ہے۔اس میں قصور یہاں کے شہریو ں کا بھی ہے۔ورنہ یہاں ایسی گلیاں بھی ہیں جہاں کے مکینوں نے ایک پریشر گروپ بنارکھا ہے۔ وہ سرکار کے دفتر میں عرضی گزارتے ہیں۔پھر اپنے لئے کوڑے کے ڈرم منظور کروالیتے ہیں ۔ جن گلیوں کے کوڑے کرکٹ کا میںنے ذکر کیا ہے یہاں بھی اگر چار بائی چار کے ڈرم کوڑے دان وغیرہ رکھ دیئے جائیں تو گند کےلئے ایک جگہ خاص ہو جائے گی۔ شاید اس طرح صورتِ حال کی ابتری پرقابو پایا جا سکے ۔