اسلام اور مغرب کا پروپیگنڈا

 صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی نے یورپ میں ہولوکاسٹ سے انکار کو جرم قرار دینے اور گستاخانہ خاکوں کی اجازت دینے جیسے مکروہ عمل کو منافقانہ قوانین قرار دیتے ہوئے ان کی تبدیلی پر زور دیا ہے۔ ٹوئٹر پر پیغام میں صدر مملکت کا کہنا تھا کہ جب اظہار رائے کی آزادی کے لبادے میں ایسی مذموم کاروائیوں کی اجازت دی جائے تو انتہا پسند فائدہ اٹھاتے ہیں۔انہوں نے لکھا کہ زیادہ تر یورپ میں ہولوکاسٹ سے انکار جرم ہے اور پھر بھی توہین آمیز کارٹونوں کی عوامی نمائش کی اجازت دینے پر اصرار کیا جاتا ہے تو ایسے منافقانہ قوانین کو تبدیل کرنا ہوگا۔ فرانس کو اپنی پالیسی میں تنہائی اور انتہا پسندی کے جال میں پھنسنے کی بجائے اپنی پوری آبادی کو متحد کرنے کیلئے سیاسی پختگی کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ دوسری جانب فرانسیسی صدر میکرون کی جانب سے اسلام کے خلاف ہرزہ سرائی کے رد عمل میں مسلم ممالک میں فرانسیسی اشیا ءکا بائیکاٹ کرنے کی مہم میں تیزی آ رہی ہے جس سے پریشان ہو کر فرانس بائیکاٹ نہ کرنے کی اپیلیں کر رہا ہے۔ اردن، کویت، قطر، مصر، ترکی اور لیبیا سمیت متعدد مسلم ملکوں میں لوگوں نے فرانسیسی اشیا کا اجتماعی بائیکاٹ کر دیا ہے جبکہ کئی ممالک میں سپر سٹورز نے ان مصنوعات کو ہٹا دیا ہے۔فرانسیسی وزارت خارجہ نے مذکورہ ممالک پر زور دیا ہے کہ وہ مصنوعات کا بائیکاٹ نہ کریں اور اس مہم کو روکنے کیلئے اقدامات کریں۔ دریں اثنا ءفلسطین، لیبیا،عراق اور ترکی میں عوام نے جگہ جگہ سڑکوں پر نکل کر فرانسیسی صدر کیخلاف مظاہرے بھی کئے ہیں ۔ علاوہ ازیں ترک صدر طیب اردوان نے فرانسیسی صدر میکرون کو مخاطب کرتے ہوئے کہا ہے کہ صدرمیکرون کے حواس پر دن رات اردوان سوار ہے، انہوں نے کروڑوں لوگوں کے جذبات کو ٹھیس پہنچائی ہے، وہ ایک مریض ہے اور انہیں ذہنی معائنہ کرانا چاہئے۔فرنسیسی صدر کی جانب سے اسلام اور مسلمانوںکے خلاف حالیہ ردعمل پہلی دفعہ سامنے نہیں آیا بلکہ وہ اس سے پہلے بھی مسلمانوں کے خلاف سخت لب ولہجہ اور نازیبا کلمات ادا کر کے انتہا پسندی اور اپنی اسلام دشمنی کا ثبوت دیتے رہے ہیں۔ان کا اسلام مخالف حالیہ بیانیہ اس وقت سامنے آیاہے جب گزشتہ دنوں پیرس میں ایک سکول ٹیچر کو حضور کی شان میں گستاخی کے رد عمل میں ایک چیچن نوجوان نے قتل کردیاتھا تب سے فرانسیسی صدر اس واقعے کوجواز بناکر اسلام اور مسلمانوں کے خلاف تندوتیز بیانات دے رہے ہیں جس کی طرف صدر مملکت ڈاکٹر عارف علوی اور وزیر اعظم پاکستان عمران خان نے بھی اشارہ کیا ہے کہ اس سطح کے ایک فرد کو تنگ نظری اور نفرت پر مبنی بیانات دینے سے گریزکرنا چاہیے کیونکہ ایک فرد کے کسی اقدام کو جواز بنا کر ڈیڑھ ارب مسلمانوں کی دلآزاری اور انہیں ایک مخصوص نظر سے دیکھنا نہ تو قرین مصلحت ہے اور نہ ہی روشن خیالی اور جمہوریت کے علمبردار مغربی معاشروں کو مسلمانوں کے خلاف اپنائے جانے والے اس انتہا پسندانہ سوچ کا دفاع ممکن ہے۔ مسلمانوں کےخلاف مغرب کے اس متعصبانہ رویے کااندازہ ان کے اس دوغلے کرداراور منافقانہ روش سے لگایا جاسکتا ہے جس میں انہیں معصوم اور بے گناہ مسلمانوں کےخلاف غیرمسلموں کی جانب سے اگر ایک طرف ان کے مذہب،آخری مقدس کتاب قرآن عظیم الشان، پیغمبر اسلام کےخلاف متعصبانہ رویہ اپنا کر آزادی اظہار کی آڑ میں دشنام طرازی اور بے حرمتی کی جاتی ہے تو دوسری جانب فلسطین، برمااور مقبوضہ جموں وکشمیرمیں نہ صرف مسلمانوں کی منظم نسل کشی کی جارہی ہے بلکہ ان مظالم پر مغربی قوتیںخاموش رہ کر درپردہ ان مظالم کی پشت پناہی کی مرتکب بھی ہو رہی ہیں۔ افغانستان میں نیٹو فورسز پچھلے بیس سالوں کے دوران سول آبادی کے خلاف طاقت کا جو اندھا اور بے دریغ استعمال کرتی رہی ہیں اس کا اعتراف یہ ممالک متعدد مواقع پر خود بھی کر چکے ہیں جس کی ایک جھلک گزشتہ روز میڈیا میں رپورٹ ہونے والے اس واقعے میں دیکھی جاسکتی ہے جس میں انکشاف کیا گیا ہے کہ ایک موقعے پر جب آسٹریلوی فوجیوں نے چھ مقامی افراد کو آپریشن کر کے گرفتار کیا توواپسی پر جب ہیلی کاپٹر کے پائلٹ نے سواریوں کی تعداد زیادہ ہونے کی بنیاد پر ہیلی کاپٹر اڑانے سے انکار کردیا توایک آسٹریلوی کمانڈو نے زیر حراست ایک افغان شہری کوشوٹ کرکے ہیلی کاپٹر میں دستیاب جگہ کے مطابق سواریوں کی تعداد برابر کرکے پائلٹ کو ہیلی کاپٹر اڑانے کا حکم دیا،کیا اس سے بڑھ کر انسانیت کی کوئی اور تذلیل ہوسکتی ہے۔ یاد رہے کہ وزیراعظم عمران خان جو مغربی ممالک کو ان کے ہاں آزادی اظہار کے نام پر نبی کریم اور قرآن پاک کی بے حرمتی کے واقعات پر متنبہ کرتے رہتے ہیں پچھلے دنوں جنرل اسمبلی سے اپنے ویڈیولنک خطاب میں بھی اس اہم ایشو کوزیر بحث لاتے ہوئے اسلامو فوبیا کے خاتمے کےلئے اقوام متحدہ کو کوئی عالمی دن منانے کامطالبہ کرچکے ہیں۔