پاکستان کے شعبہ¿ صحت میں انقلابی و ڈرامائی تبدیلیاں (تغیرات) رونما ہو رہے ہیں‘ جن سے نہ صرف اِس شعبے پر بلکہ قومی اقتصادیات پر بھی اثرات مرتب ہوں گے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ حکومت کی جانب سے فراہم کیا جانے والے صحت کے نظام سے کتنے فیصد عوام فائدہ اُٹھا رہے ہیں اور اِس کی قیمت کتنے فیصد عوام کی طرف سے ادا کی جا رہی ہے۔ اِسی ذیل میں تیسرا سوال یہ ہے کہ کیا یہ سب تبدیل ہوگا؟ لیکن عجیب و غریب صورتحال یہ ہے کہ جہاں بہت کچھ تبدیلی (اصلاح) زیرغور ہے وہاں ادویہ ساز صنعتیں منفی اثرات سے محفوظ دکھائی دے رہی ہیں جن کے مجموعی سالانہ منافع کی شرح ملک میں صحت عامہ پر اُٹھنے والے کل اخراجات کا قریب دو تہائی ہے! یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ پاکستان میں علاج معالجے کے حوالے سے اِس وقت ایک نہیں بلکہ دو قسم کے انقلاب اُٹھ رہے ہیں۔ پہلا انقلاب یہ ہے کہ حکومت ’صحت کا بیمہ‘ متعارف کروانے جا رہی ہے جسے مرتب کرتے ہوئے کم آمدنی رکھنے والے طبقات کی ضروریات کو مدنظر رکھا جائے گا اور دوسرا انقلاب صحت کے نظام کو جدید خطوط پر استوار کرنا ہے جس میں ٹیکنالوجی‘ تحقیق اور ادویات کی بلاتعطل فراہمی جیسے اقدامات شامل ہیں۔ صحت بیمہ کے سلسلے میں پیشرفت پہلے ہی سے جاری ہے اور صحت انصاف پروگرام کے تحت نجی بیمہ کمپنیوں کو اربوں روپے سالانہ فائدہ پہنچ رہا ہے۔ یہ بیمہ حکومت کے اپنے ادارے اور اِس مقصد کے لئے خصوصی بیمہ کمپنی بنا کر کیوں نہیں کیا گیا یہ سوال پوچھا جا سکتا ہے لیکن ضروری نہیں کہ حکومت کی طرف سے ہر سوال کا جواب بھی دیا جائے۔ صحت کا بیمہ کرنے کے بعد دوسرا انقلابی اقدام ’آن لائن ادویات فروشی‘ متعارف کروانا ہے تاکہ ادویات کی صارفین تک رسائی کا متبادل نظام موجود ہو اور ادویہ ساز ادارے یا فروخت کرنے والے جس انداز میں مصنوعی قلت پیدا کرتے ہیں اُس کا امکان ختم کیا جا سکے کیونکہ جب کسی دوائی کی اچانک قلت پیدا ہوتی ہے تو حکومت کے لئے ممکن نہیں ہوتا کہ وہ ہر گودام اور ہر گودام کے کونے کھدرے کی تلاشی لے لیکن اگر آن لائن ادویات کی فروخت کا نظام اپنے پاو¿ں پر کھڑا ہو جائے تو اِس سے ہر سطح پر ذخیرہ اندوزوں کی حوصلہ شکنی ممکن ہو جائے گی۔ ضمنی بات ہے کہ آن لائن ادویات کی فروخت سے حکومت کو ادویات کے شعبے پر عائد مختلف ٹیکسوں کی وصولی بھی آسان ہو جائے گی اور ٹیکس چوری کے امکانات بھی کم ہو جائیں گے کیونکہ ایسی خریدوفروخت کے کوائف (ریکارڈ) کی جانچ نسبتاً آسان ہو گی۔شعبہ¿ صحت میں علاج معالجہ وہ بنیادی اور توجہ طلب ادھورا کام ہے جو بہت سے دیگر ادھورے امور کا حصہ ہے اور طرزحکمرانی کی یہی خامی عام آدمی کے لئے مشکلات و پریشانی کا باعث ہے کہ جس چیز کی جب ضرورت ہوتی ہے عین اُسی وقت اُس کی قلت پیدا ہو جاتی ہے۔ جان بچانے والے ادویات اِن میں سرفہرست ہیں‘ جن کی آئے روز پیدا ہونے والی قلت کا بنیادی مقصد قیمتوں میں اضافہ یا اُن کی مقررہ قیمت سے زائد میں فروخت ہوتی ہے اور اصطلاحاً اِس عمل کو ’بلیک مارکیٹنگ‘ کہا جاتا ہے۔ لمحہ¿ فکریہ ہے کہ ایک عام آدمی کو جن زمینی حالات کا سامنا ہے‘ حکومت اور حکومتی ادارے اُس کا انکار کرتے ہیں اور اِسی انکار کی وجہ سے ناجائز منافع خوروں کے وارے نیارے ہیں۔ ناجائز منافع خوری کا عمل ادویہ سازی کی صنعتوں سے اِس کی تھوک پرچون اور فراہمی (ترسیل) کے مراحل میں الگ الگ طریقوں سے ہوتا ہے۔ ’آن لائن‘ ادویات فروشی کی حوصلہ افزائی کرنے کے ساتھ ساتھ یکساں ضروری ہے کہ صارفین کی شکایات کا نظام بھی ساتھ ساتھ پروان چڑھایا جائے کیونکہ جیسے جیسے ادویات کی آن لائن خریدوفروخت بڑھے گی‘ جو کہ حکومت چاہتی بھی ہے تو ویسے ویسے صارفین کی شکایات بھی سامنے آئیں گی۔ فی الوقت بہت ساری محلول ادویات شیشے کی بوتلوں میں فروخت کےلئے پیش کی جاتی ہیں جنہیں مضبوط پلاسٹک سے بنی بوتلوں میں فروخت کےلئے پیش کرنے میں مشکل یہ ہے کہ پلاسٹک میں موجودہ کیمیائی مادے دوائی کی ہئیت اور طاقت کو متاثر کر سکتے ہیں جو کہ اِس کا بنیادی کام ہے۔ پاکستان میں ڈاک کا نظام اِس قدر سلجھا ہوا نہیں کہ اِس میں شیشے کی بوتلوں میں بند ادویات محفوظ طریقے سے صارفین تک پہنچ سکیں لیکن اگر اِس سلسلے میں خصوصی پیکجنگ متعارف کروائی جائے تو اِس مشکل کا حل نکالا جا سکتا ہے۔حقیقت یہ ہے کہ ترقی یافتہ ممالک میں یہ شعبہ بہت بڑی تبدیلیوں سے گزرا ہے اور وہاں پر نہ صرف علاج دور رہ کر کیا جاتا ہے بلکہ ادویات کی خرید و فروخت بھی اس طرح کی جاتی ہے ۔اب ہمیں بھی اس طرف توجہ دینی ہوگی اور اس ضمن میں عملی اقدامات اٹھانے ہوں گے۔ تب ہی ہم ان مسائل کو حل کر سکتے ہیں جن کااس وقت مختلف شعبہ ہائے زندگی میں ہمیںسامنا ہے۔جہاں تک ادویات کی فراہمی کاتعلق ہے تو ادویات کی آن لائن فروخت کو گھر کی دہلیز کی بجائے اگر ’میڈیسن ڈسٹری بیوشن مراکز‘ کے ذریعے فراہم کیا جائے تو اِیسی فارمیسیز رعایت کے علاوہ جعلی ادویات کی روک تھام میں بھی معاون و مددگار ہو سکتی ہیں۔ اُمید ہے کہ فیصلہ ساز ’سو فیصد‘ آن لائن ادویات کی خریدوفروخت پر اکتفا کرنے کی بجائے اِسے جزوی اور مرحلہ وار انداز میں متعارف کروانے پر بھی توجہ دیں گے۔ادویات کی مسلسل اور مناسب نرخوں پر فراہمی کو اگر طب کے مسائل کے حل میں اہم ترین قراردیا جائے تو غلط نہیں ہوگا اور اس سلسلے میں حکومتی اقدامات کو اگر اولین ترجیح قرار دیا جائے تو زیادہ مناسب ہے ۔ اس وقت دیکھا جائے تو ادویات کی سستے داموں اور مسلسل فراہمی کا نظام مفلوج ہو چکا ہے اور جہاں ادویات کی قیمتیں آسمان کو چھو رہی ہیں وہاں ان کی دستیابی بھی سوالیہ نشان ہے۔ دیکھا جائے تو دو شعبے ایسے ہیں کہ جن پر سخت حکومتی نگرانی ضروری ہے ، ان میں سے ایک اگر تعلیم ہے تو دوسرا شعبہ طب کا ہے کہ ان دونوں کاتعلق انسانی جان سے ہے ایک اگر رویوں کی تشکیل ہے تو دوسرا شعبہ انسان کے جسم سے وابستہ ہے اور ان دونوںسے غفلت برتنے کی کوئی گنجائش نہیں۔