عالمی سطح پر ”آزادی¿ اِظہارِ رائے“ سے متعلق جاری کردہ رپورٹ کے مطابق پاکستان دنیا کے اُن چند ممالک میں شامل ہے‘ جہاں اِنٹرنیٹ کو ’خاطرخواہ آزادی‘ حاصل نہیں۔ ”فریڈم نیٹ ورک“ کی مذکورہ رپورٹ پاکستان کے روشن پہلوو¿ں سے زیادہ تاریک پہلوو¿ں کا احاطہ کر رہی ہے لیکن ایسی رپورٹیں اگر سوفیصد درست نہ بھی ہوں تو اِن کے نتائج مدنظر رکھتے ہوئے بہتری کی گنجائش سے فائدہ ضرور اُٹھایا جا سکتا ہے۔ پاکستان میں انٹرنیٹ کی آزادی اور حکومت کی جانب سے اقدامات کا موازنہ دنیا کے دیگر ممالک سے کرنا درست نہیں بلکہ کسی بھی ملک کا موازنہ دوسرے سے نہیں کیا جا سکتا کیونکہ انٹرنیٹ کو آزادی کے نام پر ملک کی داخلی و خارجہ سلامتی کو خطرے میں نہیں ڈالا جا سکتا اور نہ ہی ایسا کرنا دانشمندی ہوگی۔ سیکورٹی اداروں کا بنیادی کام (ذمہ داری) اور استحقاق ہی یہی ہے کہ وہ قومی وسائل بالخصوص مواصلاتی ذرائع کا ریاست کے خلاف استعمال کو روکیں اور اِسی مقصد سے اکتوبر 2018ءمیں پاکستان نے کینیڈین کمپنی سینڈوائن (Sandvine) سے بات چیت کی تھی اور اِس سلسلے میں باقاعدہ معاہد دسمبر 2018ءمیں ایک کروڑ پچاسی لاکھ (18.5 ملین) ڈالر مالیت کا معاہدہ کیا تھا جس کا مقصد ’انٹرنیٹ کی نگرانی‘ تھا۔ اِس نظام کی وجہ سے ریاستی فیصلہ سازوں کو انٹرنیٹ استعمال کرنے والا ہر صارف کی ’آن لائن سرگرمیاں‘ معلوم ہوتی ہیں یا اگر ریاست چاہے تو معلوم کر سکتی ہے۔ ظاہر سی بات ہے کہ پاکستان اپنی دفاعی ضرورت کو مدنظر رکھے گا اور اِس بات سے کوئی فرق نہیں پڑتا کہ دنیا پاکستان میں انٹرنیٹ کی آزادی کو کس نظر سے دیکھتی ہے لیکن اگر انٹرنیٹ پاکستان میں تخریب کاری اور دہشت گردی یا ریاستی مفادات کو نقصان پہنچانے کے لئے استعمال ہو رہا ہے تو ایسے ملک دشمن عناصر کو قانون کے مطابق سزا دینا بھی حکومت ہی کی ذمہ داری ہے۔ بہرحال انٹرنیٹ کی نگرانی کا مذکورہ نظام تکنیکی اعتبار سے ”ڈیپ پیکٹ انسپیکشن (ڈی پی آئی)“ کا استعمال کرتا ہے اور اِس طریقے کی بدولت کسی صارف کی ذاتی فون کالز سے لیکر کسی بھی ذریعے سے پیغامات کے تبادلے تک پاکستان ٹیلی کمیونیکیشن اتھارٹی (پی ٹی اے) کو رسائی حاصل ہے۔ ایک عام آدمی کو اِس نگرانی سے پریشان نہیں ہونا چاہئے کیونکہ اِس کا زیادہ تر اور بنیادی استعمال جرائم کی تفتیش کے لئے کیا جاتا ہے۔ دنیا پاکستان میں انٹرنیٹ کو حاصل آزادی سے تو پریشان ہے لیکن پاکستان کی داخلی سلامتی کو لاحق خطرات کو شمار نہیں کیا جاتا۔حالیہ چند ماہ کے دوران وفاقی حکومت کی طرف سے انٹرنیٹ کی نگرانی کے عمل کو موثر بنایا گیا ہے اور اس ضمن میں جہاں انفرادی رائے کے اظہار کو مد نظر رکھا گیا وہاں قومی سلامتی کے تقاضوں کوبھی نظر انداز نہیں کیا گیا۔ اس میں کوئی شک نہیں کہ ہر ملک اپنے مخصوص حالات اور تقاضوں کے مطابق ہی انٹرنیٹ کے استعمال اور اسکے فوائد سے استفادہ کا حق رکھتا ہے ۔ سال 2020ءسے متعلق ”فریڈم آف دی ورلڈ“ کی آزادی اظہارِ رائے پر مبنی عالمی فہرست میں پاکستان 100 ممالک میں 38ویں نمبر پر ہے جبکہ اِسے انٹرنیٹ کے حوالے سے ”جزوی آزاد“ ملک قرار دیا گیا ہے۔ ذہن نشین رہے کہ یہ درجہ بندی 2019ءمیں ہوئے اقدامات کی وجہ سے ہوئی ہے جبکہ سال 2020ءکے واقعات (مثالوں) سے عیاں ہے کہ پاکستان میں آن لائن نگرانی میں اضافہ ہوا ہے۔ اور اس سلسلے میں معاشرتی اقدار اور قومی سلامتی کے تقاضوں کو لاحق خطرات کا تدارک کرنے کیلئے اقدامات اٹھائے گئے ۔ رواں سال جولائی میں یکے بعد دیگرے پہلے ٹِک ٹاک ویڈیو ایپ کو انتباہ جاری کیا گیا جبکہ ایک اور ایپ بیگو لائیو کو بند کردیا گیا جبکہ ٹِک ٹاک کو بھی وارننگ پر عمل نہ کرنے کے نتیجے میں بند کیا گیا۔ ٹِک ٹاک بند کرنے کا جواز ’پی ٹی اے‘ نے ’غیر اخلاقی اور ناشائستہ مواد‘ کو قرار دیا تھا تاہم شکایت کا ازالہ کرنے کی صورت میں 10 روز میں ٹک ٹاک کو بحال کر دیا گیا جبکہ ٹک ٹاک نے پاکستان کے کہنے پر بعض معاملات میں مناسب اقدامات اٹھانے کاوعدہ کیا۔ اُمید کی جا سکتی ہے کہ انٹرنیٹ آزادی سے متعلق عالمی رپورٹ کو مدنظر رکھتے ہوئے سیاسی و غیرسیاسی قومی فیصلہ ساز اس ضمن میں ایسے اقدامات اٹھائیں گے کہ جہاں اظہار رائے متاثر نہ ہو وہاں معاشرتی اقدار اور قومی سلامتی کے تقاضوں کو بھی مد نظر رکھا جائے۔