آزادی کی نیلم پری

نئی سوچ سے تبدیلی آتی ہے ۔نئے کپڑے بدلنے سے حالت تو بدلتی ہے مگر ذہن نہیں بدلتا۔ چہرہ روشن ہو جاتا ہے مگر اندروں وہی خیالات کا پرانا پن قائم رہتا ہے ۔ پشاور کے ہلال رفیق کا خوبصورت شعر ”بوسیدگی ¿ جامہ ¿ ہستی قبول ہے ۔پیوند اے خدا نہ قبائے سخن میں ہو“۔ کیونکہ دروازے پر ہر ایک نے اپنا ااپنا تالا لگایا ہوا ہے۔ وہ موٹے موٹے تالے ہیں کہ ہتھوڑوںسے بھی نہ ٹوٹیں ۔تالے تعداد میں اتنے ہیں کہ ہر ایک گروپ کا اپنا قفل لگا ہے۔ جن کی چابیاں بھی تو دروازے کی دہلیز کے پاس چوکٹھ کے اندر کمرے میں پھینک دی گئی ہیں ۔تاکہ کسی کو ہمت نہ ہو سکے اور کوئی بات چیت کا ڈول تک نہ ڈال سکے کہ سوچ کا دروازہ کھل جائے۔ پھر انھوں نے ذہن کے اس تاریک کمرے میں نہ روشنی کےلئے کوئی درز چھوڑی نہ ہی تازہ ہوا کے لئے کوئی کھڑکی کھلی رکھی ہے۔بس ایک ذہنی حبس کا عالم ہے ۔المیہ یہ ہے جو نئی سوچ لے کر آتا ہے اسے تاریک راہوںمیں مار دیا جاتا ہے ۔” یہی کہا تھا میری آنکھ دیکھ سکتی ہے ۔ تو مجھ پہ ٹوٹ پڑا سارا شہر نابینا“( احمد فراز)۔ یہاں اس دیکھنے پر پابندی ہے کہ حقیت پر نظریں ہوں ۔یہاں جو کہے مجھے صحیح معنوں میںنظر آتا ہے کہتے ہیں اس کا دماغی توازن درست نہیں۔ ہم وہی گھسی پٹی رسوم ورواج والی قوم ہیں جن کی سوچ بھی غلام ہے ۔حدِ نظر سے آگے دیکھناجرم نہیں ‘یہ جرم جو بھی کرے اسے مصلوب کر دیا جاتا ہے ۔مقبول عامر کی خوبصورت نظم اسی خیال کو ظاہر کرتی ہے ” فقیہہِ شہر بولا بادشاہ سے ۔ بڑا سنگین مجرم ہے یہ آقا ۔ اسے مصلوب کرنا ہی پڑے گا۔ کہ اس کی سوچ ہم سے مختلف ہے “۔دنیا بھی بدلتی ہے آدمی بھی بدلتا ہے اور ماحول بھی۔ مگر یہ سب اس وقت ہوتا ہے جب سوچ میں تبدیلی آتی ہے ۔اگر سوچ میں رد و بدل نہ ہو تو شیر کی کھال پہن لینے سے اندر کا آدمی بہادر نہیں ہو جاتا۔ہمارے ہا ںیہی مسئلہ ہے ۔ٹائیگر کا خول پہن کر گھومنے والے سمجھتے ہیں ہم شیرِ نر بن گئے ۔ مگر ان کی اس بھول کی طرف کون ان کے خیال کوموڑ دے تم تو وہی ہو بدلے نہیں ہو۔اقبال نے اسی نکتہ کو بیان کیاہے ۔ان کا مصرع ہے کہ ” تو سمجھتا ہے یہ آزادی کی ہے نیلم پری “۔یہ پری نہیں ۔ یہ غلامی ہے ۔جب جسم آزاد ہو اور ذہن دوسروں کی سوچ اور ترکیب و ترتیب کا پیروکار ہو تو دل و دماغ کا وہاںسے آزادی حاصل کرنا بہت دشوار ہو جاتا ہے ۔سحر ہونے جانے سے سحر تو نہیں ہوتی۔” لاکھ آفتاب پاس سے ہوکر گذر گئے۔ بیٹھے ہم انتظارِ سحر دیکھتے رہے “۔سحر اندھیروںکو دور کرنے کانام ہے ۔مگر یہاں تو اور ہی فضا ہے ۔یہاں صبح نور سحر پھیلتا ہے اوردرودیوار پر پڑنے کے بعد اسے خوبصورت بناتا ہے ۔مگر ہمیں زیادہ ضرورت ہے کہ ہمارے ذہن روشن ہوں لیکن ہمارے اذہان نئی شعاعیں قبول ہی نہیںکرتے۔ کیونکہ ہم خود جو بدلنا نہیں چاہتے۔ جسم کے لحاظ سے تو ہم سست ہیں۔مگر سوچنے سمجھنے کی حد تک بھی ہم شاہجہانی لٹ واقع ہوئے ہیں۔ یہ ہندکو کامحاورہ ہے جس کامطلب ہے کہ بندہ اتنا سست اور کاہل ہو جائے کہ سہولیات حاصل جانے پر اس حد تک نکما ہو کہ اگر اس کے سینے پر بیر پڑے ہوں تو ان کے کھانے کے لئے بھی وہ اپنے کسی نوکر کو آواز دے کہ آ¶ یہ پھل اٹھا کر میرے منہ میں ڈالو۔مجید امجد نے درختوں کو نہ کاٹنے کی ہدایت کرتے ہوئے ایک خوبصورت نظم ” توسیعِ شہر “ لکھی ہے۔جس میں انھوں نے شہر کو وسیع کرنے کی غرض سے درختوں کو کاٹنے پر دلی رنج کا اظہار کیا ہے ۔ مگر ہم کہاںمنع ہوتے ہیں۔وہ فلسفی شاعر تھے 1974ءمیں انتقال کیا۔ قریباًساٹھ پہلے انھوں نے کہا تھا کہ مانتا ہوں میری یہ سوچ نئی سوچ ہے کہ درختوں کو نہ کاٹیں۔مگر آج نصف صدی سے زیادہ کاعرصہ گذرگیا مجید امجد کی سوچ پر عمل درآمد نہیں کیاگیا۔ ان کی نظم کاآخر ی شعر ہے ” اس مقتل میں صرف اک میری سوچ لہکتی ڈال ۔مجھ پربھی اب کاری ضرب اک اے آدم کی آل“۔اے لوگوچونکہ آپ سرسبزی کے دشمن ہیں اور درختوں کو کاٹ کر آپ کے جلتے سینے پرٹھنڈ پڑتی ہے سو اب مجھے بھی اپنے راستے سے ہٹا دو تاکہ تم کو روکنے والا جو ایک اکیلاہے وہ بھی نہ رہے ۔اے گرین بیلٹ کے دشمنوں میرا دماغ بھی لہلہاتی ہوئی ایک سر سبز شاخ کی طرح ہے اس کو بھی کلہاڑی کاایک کاری وار کر کے دو ٹکڑے کر دو تاکہ آپ کے راستے کی رکاوٹیں دور ہو جائےں ہمارے ہاں تو تبدیلی کا کوئی سال مقرر نہیں ہے ۔ہاں تبدیلی ضرور آئے گی مگر ا س کےلئے ہمارے ذہن میں یہ نئی سوچ توآئے کہ ہاں ہم بدلنا چاہتے ہیں ۔ماحول کی تبدیلی کا تو کیا ذکر ہماری سوچ کی تبدیلی کےلئے بھی کم از کم پچاس سال درکارہیں۔ پھرکہیں ہماری قوم کی سوچ بدلی تو ہماری حالت خود بدلنے لگے گی۔ پھر کہیں جا کر ہم یہ کہنے کے قابل ہو سکیں گے ہاں تبدیلی آگئی ہے۔؛ا س وقت تو یہ حالت ہے کہ مکان کا رنگ و روغن بدل گیا ہے ڈھانچہ وہی ہے۔ لباس بد ل گئے ہیں جسم وہی ہیں اور ان کے اندر موجود ذہن بھی وہی ۔۔۔ جب تک سوچ تبدیل نہ ہو اور ا س کے نتیجے میں روئیے نہ بدل جائیں، تبدیلی محض ایک لفظ ہے اثرات اور حقیقت سے عاری۔