کا لا ش کے تحفظ کا منصو بہ

خیبر پختونخوا کی حکومت نے بین الاقوامی شہرت یافتہ قبیلہ کا لا ش کے تحفظ اور عوا م کی مادی و معا شی ترقی کےلئے کا لا ش ویلیز ڈویلپمنٹ اتھارٹی قائم کرنے کی منظوری دی ہے جسے عالمی نشر یاتی اداروں نے بیحد سراہا ہے یو نیور سٹیوں کے متعلقہ شعبوں اور تر قیا تی اداروں میں اس پر بحث ہو رہی ہے کہ کا لا ش قبیلے کی منفر د تہذیب و ثقا فت کو کس طرح خطرات در پیش ہیں ؟ ان خطرات کی روک تھا م کس طرح ہو سکتی ہے ؟ 50سال پہلے ڈاکٹر نوید راحت جعفری نے اس مو ضوع پر جا مع رپورٹ مر تب کی تھی بھٹو کی حکومت یو نیسکو کے ساتھ مل کر کا لا ش ویلیز کو عالمی ورثہ قرار دینا چاہتی تھی اس اثنا میں جین لا ودے کی کتاب بھی آگئی جس میں کا لاش تہذیب اور ثقا فت کو پہلی بار جا مع صورت میں پیش کیا گیا اور اسکی معدومیت کے خطرے کا اظہار کیا گیا اس مو ضوع پر شائع ہونے والی 57کتا بوں میں لا ودے کی تصنیف ”دی کا لاش سولس ٹس “ سب سے اہم دستا ویز ہے اس بات پر سب کا اتفاق ہے کہ کا لا ش کی آبادی سال بہ سال کم ہورہی ہے کا لاش کو مذہبی اقلیت سے زیا دہ ثقا فتی اکا ئی اور نسلی اکا ئی کی حیثیت سے عالمی شہرت حا صل ہے کا لاش کی ثقافت اور نسلی تاریخ پر جتنی تحقیق ہوئی ہے کسی اورقبیلے پر اتنی تحقیق نہیں ہوئی اس پہلو پہ سندھ کے آذر آیار کے ساتھ چترال کے رحمت کریم بیگ اور راقم نے کا فی کام کیا ہے نئے منصو بے میں تینوں پہلو ﺅں کو سامنے رکھ کر کام کر نا ضروری ہے کا لاش تہذیب اور ثقا فت کو تحفظ دینے کےلئے چند بنیا دی نکا ت پر غور کرنا ضروری ہے پہلا نکتہ یہ ہے کہ گذشتہ نصف صدی کے اندر پا کستان کی اہم دستا ویز مردم شما ری رپورٹ میں کا لا ش کی آبادی اور ان کی زبان کو نہیں دکھا یا گیا یو نیسکو حکام کہتے ہیں کہ جب تک پا کستان کی مر دم شماری رپورٹ میں کا لا ش قبیلے کا نام نہیں آئے گا فنی اور تکنیکی بنیا دوں پر کا لا ش کلچر کو عالمی ورثہ قرار دینے پر کام نہیں ہو سکے گا شکر کا مقام ہے کہ نیشنل ڈیٹا بیس اینڈ رجسٹریشن اتھارٹی ( نا د را ) نے 2018ءمیں شنا ختی کارڈ کے اندر کا لا ش کے اندراج کی منظوری دی اس سے پہلے کا لا ش کا نام شنا ختی کارڈ میں بھی نہیں آتا تھا دوسرا ضرری نکتہ یہ ہے کہ گزرے ہوئے 200سالوں میں کا لاش وادیوں کے نام اور کا لاش دیہات کے نام تبدیل کئے جا چکے ہیں یو نیسکو کا کنونشن اس تبدیلی کی اجازت نہیں دیتا 1876ءمیں کا لاش وادی کا نام کا لاش گوم تھا اب یہ نام معدوم ہو چکا ہے 1876ءمیں کا لاش وادی کے بڑے گاﺅں کا نام موموریت (Mummuret) تھا جس کو بمبوریت بنا یا گیا ہے انیسویں صدی میں کا لاش کی ایک اور وادی کا نام روکمو (Rukmu) تھا جسے اب رومبور کہا جا تا ہے 200سال پہلے بریر کا نام بھی ایسا نہیں تھا اس طرح 18چھوٹے دیہا ت کے نام تبدیل ہو چکے ہیں‘ یو نیسکو کے ماہرین کہتے ہیں کہ ثقا فت کی مو ت ناموں کی تبدیلی سے واقع ہوتی ہے چوتھا اہم نکتہ یہ ہے کہ کا لاش مذہب کی کوئی دستاویز یا کتاب اب تک مر تب نہیںہوئی مذہبی عقائد کو گیتوں اور کہا نیوں کی صورت میں اب تک سینہ بسینہ محفوظ رکھا گیا ہے پا نچواں ضرری نکتہ یہ ہے کہ کا لاش کے میڑیل کلچر سے زیا دہ اہم نان میٹیریل کلچر ہے اس کا تحفظ کسی بھی منصو بے کی تر جیحات میں اولین ترجیح ہونی چاہئے ان 5نکا ت کا احا طہ کرنے کے ساتھ ساتھ یہ بھی ضروری ہے کہ کالاش کلچر کے تحفظ کا جو منصو بہ ہے اس کے فوائد کا لاش لو گوں کو ملنے چا ہئیں ما ضی میں محکمہ ثقا فت نے جو منصو بے منظور کئے وہ پشاور ہی میں ختم ہوئے اگر ایک منصو بے کا ہیڈ آفس پشاور میںہو منصوبے کی 8گا ڑیاں وہاں کھڑی ہوں 38ملا زمین وہاں بیٹھے ہوں تو کالاش کو کیا فائدہ ہو گا ؟ کا لاش ویلیز ڈویلپمنٹ اتھارٹی کا ہیڈ آفس بمبوریت میںہو نا چاہئے اس کی ملا زمتیں کا لاش عوام کو ملنی چاہئیں پھر دیگر فوائد بھی کا لا ش عوام کو ملیںگے پشاور میں قائم دفتر سے کا لا ش عوام کو ایک پا ئی کا فائدہ نہیں ہو گا ۔