یہ گلیاں یہ کوچے

شہر میں جوںصبح کا سورج طلوع ہوتا ہے ۔کیکڑوں کی یلغار شروع ہوتی ہے اور اس شہر کے اونچے نیچے راستے ہوتے ہیں ۔وہ کون سی راہ ہے جو ان سے خالی ہو ۔ہر سو ہر طرف یہی ٹریکٹر ٹرالیاں اور بڑے ٹرک شہر ہو یا شہر سے باہر کی دنیا ہر طرف اینٹیں اور بجری اور تعمیر کادوسرا سامان لاد کر رواں دواں ہوتے ہیں۔ جو راستے ا ن گاڑیوں کے ناپ کے بھی نہیں وہاں بھی یہ گھسے ہوتے ہیں۔ جس کی وجہ سے ٹریفک بلاک کے مسائل پیدا ہوتے ہیں۔رنگ روڈ کے آس پاس درجنوں مقامات ایسے ہیں جہاں ریت اینٹ بجری اور اس قسم کی تعمیرکا دوسرا سامان دستیاب ہے ۔یہاںتو بس ایک اودھم مچا ہواہے ۔کسی اور گاڑی والے کو نمبر ہی نہیں ملتا کہ وہ اس سڑک پر سے ٹرالیوںسے آگے ہو کر نکل جائے۔ کیونکہ بعض مقامات پر راہیں دشوار اور سپیڈ بریکر کی وجہ سے خوار و زار ہیں ۔ پھر ان پر خود یہ ٹرالیاں بہت مشکل سے گزرتی ہیں ۔ ایسے میں کسی اور گاڑی کو رواں رواں ہوکر جانے کاچانس کہاں ملے گا۔ شہر کے گوناں گوں مسائل ہیں ۔انت گنت گرہیں ہیں جن کو کھولنا ہے ۔ مگر یہاں تو جو مسائل پہلے سے موجود تھے وہ تو ویسے کے ویسے ہیں ۔مگر اس پر یہ کہ اور نئی الجھنیں جنم لے رہی ہیں۔جس کی وجہ سے عام آدمی کا جینا دوبھر ہو چکا ہے۔ بچے سکول جائیں تو ان کے گھر والے اس وقت تک سولی پر لٹکے رہتے ہیں جب تک وہ واپس نہیں آ جاتے۔ کیونکہ ان ٹرالیوں کی وجہ سے کئی حادثات ہوئے ہیں ۔ جن میں معصوم بچوں کی جان گئی ہے ۔اینٹوں کی لبالب بھری ہوئی ٹرالی تلے کتنے بچے کچلے گئے ہیں۔مگر ان کو پھر بھی سبق حاصل نہیں ہوتا۔ ان کے اندر کاانسان مر چکا ہے ۔بڑے ٹائروں والا ٹریکٹر کم عمر ڈرائیوربچوں کے ہاتھ میں دے دیتے ہیں ۔جس کی وجہ سے وہ نوجوان لڑکے بے فکری اور غیر ذمہ داری کا مظاہرہ کرتے ہیں۔ گلیوں کوچوں میں بھی یوں ٹریکٹر وں کو دوڑاتے ہیں جیسے موٹر وے پر رواں دواں ہوں۔ایسے میں ان کےلئے کوئی قانون ہونا چاہئے ۔ اگر قانون پہلے سے موجود ہے تو اس پر عمل درآمد کیوں نہیں ہو رہا۔ ہماری ٹریفک پولیس کی ساری توجہ بڑی سڑکو ںاور چوکوں پر اگر کسی گاڑی پرہوتی ہے تو وہ مال سے لدی ہوئی گاڑی ہوتی ہے ۔جہاں سے ان کو کچھ نہ کچھ امید ہوتی ہے ۔دن کو شہر کے اندر ٹرک گھسے ہوتے ہیں۔ جن کو ان گنہ گار آنکھوں نے خود دیکھا ہے۔ میں نے ایک چوک پر ایک پولیس والے سے پوچھا کہ ٹرک کو شہر میں داخلہ کےلئے کون سا ٹائم دیا گیا ہے ۔حالانکہ مجھے معلوم ہے کہ ٹرکوں کو شہر کی حدود میں داخلہ کےلئے جو وقت دیا گیا وہ رات دس بجے کے بعد کا ہے ۔پھر صبح نمازِ فجر کی اذان سے پہلے انھیں شہر سے باہر واپس نکلنا ہوتا ہے ۔مگر ایسا نہیں ہوتا۔اس پولیس والے بھائی نے اس سوال کے جواب میں اپنے حوالدار کی طرف دیکھا ۔ گویا اسے میرے سوال کا جواب معلوم نہ تھا۔ حوالدار نے جواب بھی دیا تو بے دلی سے اور اندھیرے میں تیر مارنے والا کام کیا ۔ غلط ٹائم بتلایا‘کئی سالوں سے یہ عالم ہے ۔ کتنی تعمیر ہے جو ختم ہونے کانام ہی نہیں لے رہی ۔ چلو تعمیر و مرمت تو ہوگی اس کو تو روکا نہیں جا سکتا ۔ ہر روز گھر بن رہے ہیں بلڈنگ اور پلازے زیر تعمیر ہیں ۔ مگر خدارا ٹریکٹر ٹرالیوں کا کوئی رُول اصول ہونا چاہئے ۔اگر ہے تو اس پر عمل ہونا چاہئے۔شہر کاماحول آگے برباد ہو چکاہے۔اس پر یہ ٹریکٹر ٹرالیاں جو چھوٹی بھی ہیں اور بڑی او رپھر کنگ سائز کی بھی پائی جاتی ہیں ۔ یہ شہر کے تنگ راستوں میں یوں دوڑتی ہیں جیسے کسی ریس میں حصہ لے رہی ہوں۔شہر پھیل رہاہے شہر کے باہر تعمیری سلسلہ دائیں سے بائیں پھیل رہاہے ۔یہ تو ہونا ہے ۔کیونکہ تعمیر کا کام قیامت تک نہیں رکے گا۔ پھر ہمارے جیسے شہر میں جہاں تخریب بہت ہوئی ہو وہاں خالی مرمت کا اتنا کام ہے کہ برسوں بیت جائیں گے مگر پورا نہ ہوگا۔ ایسے میں یہا ںنئی تعمیر لازمی ہے اور تعمیراتی مواد ٹرالیوں کے ذریعے ہی پہنچایا جا سکتا ہے یعنی ٹریکٹر ٹرالی والوں کو مورد الزام نہیں ٹھہرایا جا سکتا تاہم ضروری ہے کہ اس حوالے سے نظام الاوقات کی پابندی کی جائے اور رش کے اوقات میں اندرون شہر جانے سے گریز کیا جائے۔