فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ

پاکستان میں مغربی ممالک و امریکہ سے درآمد ہونے والی مصنوعات نہ خریدنے کی مہم جاری ہے جس میں زیادہ زور ’فرانسیسی مصنوعات‘ پر ہے اور اِس سلسلے میں سوشل میڈیا کا استعمال کرتے ہوئے اُن سبھی مصنوعات کی شناخت میں مدد کی جا رہی ہے جو فرانس سے درآمد ہوتی ہیں یا فرانسیسی کمپنیاں پاکستانی صنعتوں کے تعاون سے پاکستان ہی میں تیار کر رہی ہیں اور اُن کی تیاری میں استعمال ہونے والا خام مال درآمد کیا جاتا ہے۔ یہ صورتحال خاصی پیچیدہ ہے کیونکہ صرف خوردنی یا فیشن میں استعمال ہونے والی اشیاءہی نہیں بلکہ ادویات بھی فرانس سے درآمد ہوتی ہیں اور خیبرپختونخوا کے کئی اضلاع سے ادویات فروخت کرنے والی تنظیموں (فارمیسٹ ڈرگز ایسوسی ایشنز) نے بیانات جاری کئے ہیں کہ وہ فرانسیسی ادویات کی خریدوفروخت ترک کر رہے ہیں۔سوشل میڈیا صارفین بڑھ چڑھ کر بائیکاٹ مہم کا پرچار کر رہے ہیں مگرعجیب و غریب صورتحال یہ ہے کہ اُن فرانسیسی مصنوعات کی تاحال کوئی ایسی مصدقہ فہرست سامنے نہیں آئی جو درآمد ہوتی ہیں یا جن میں فرانسیسی خام مال استعمال ہوتا ہے بلکہ یہاں بھی جعل سازی ہو رہی ہے اور مختلف کاروباری ادارے ایک دوسرے کو نقصان پہنچانے کے فرضی پیغامات جاری کر رہے ہیں تاکہ اپنے مدمقابل کاروبار کو نقصان پہنچائیں۔دنیا کی قریب پچیس فیصد مسلم آبادی اگر متحد ہو جائے تو وہ عالمی سطح پر سالانہ 80 کھرب کی تجارت سے متعلق اپنی ترجیحات کا تعین کر سکتی ہے اور یوں ہونے والا کسی بھی ملک کی مصنوعات کا بائیکاٹ معنی خیز (کارآمد) ہو سکتا ہے۔ مسلم دنیا کو متحد ہونے سے روکنے کے لئے بھی غیرمسلم اپنے وسائل کا استعمال کرتے ہیں کیونکہ وہ جانتے ہیں کہ اگر مسلم ممالک متحد ہو گئے اور اُمہ کے تصور نے عملی جامہ پہن لیا تو کاروباری مفادات رکھنے والے مغربی ممالک اِن کے سامنے ڈٹ نہیںسکیں گے اورکسی کی جرا¿ت بھی نہیں ہوگی کہ وہ پیغمبر اسلام صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم کی بلندذات تو بہت دور کی بات کسی اسلامی مقدسہ کے بارے میں بھی ایک غلط لفظ یا سوچ کا پرچار کرسکیں۔فرانسیسی مصنوعات کا بائیکاٹ کرنے سے متعلق مہمات پر یقین کرنے سے پہلے تحقیق ضروری ہے کہ مبادا جذبات اور غلط فہمی کی بنیاد پرپاکستان ہی کی صنعتوں کو نقصان نہ پہنچایا جائے۔ اِس سلسلے میں پہلی ذمہ داری ایوان ہائے صنعت وتجارت اور دوسری ذمہ داری حکومت کی بنتی ہے کہ وہ درآمد ہونے والی فرانسیسی مصنوعات کے نام جاری کرے اور اُن مصنوعات کے نام بھی مشتہر کرے جن میں جزوی طور پر فرانسیسی خام مال استعمال ہوتا ہے۔ ضروری نہیں کہ فرانسیسی مال براہ راست فرانس ہی سے درآمد ہوتا ہو بلکہ یہ مختلف ممالک جیسا کہ متحدہ عرب امارات‘ برازیل اور چین سے بھی درآمد ہو سکتا ہے۔ آج کی دنیا ’گلوبل ویلیج‘ ہے۔ امریکہ اور مغربی ممالک کی بیشتر اشیا چین اور دیگر ایسے ممالک میں تیار ہوتی ہیں‘ جہاں کی افرادی قوت (لیبرفورس) کم معاوضے پر ملتی ہے۔ پاکستان کے اپنے خام مال اور اپنی افرادی قوت کا استعمال کرتے ہوئے اگر مصنوعات تیار ہو رہی ہیں اور اُن کی تیاری کرنے والے اداروں کے حصص (ملکیت کا کچھ حصہ) فرانسیسی کمپنیوں کے پاس ہے تو بائیکاٹ کا عمل اور فیصلہ خاصا پیچیدہ ہو سکتا ہے۔ تصور کریں کہ پاکستان میں سائنس اینڈ ٹیکنالوجی کے میدان میں تحقیق و ایجادات نہیں ہو رہیں بلکہ موبائل فون سے لیکر کمپیوٹرز‘ ادویات اور جدید آلات جراحت سے لیکر دفاعی سازوسامان تک سب کچھ کسی نہ کسی ملک سے درآمد ہو رہا ہے۔ اِسی طرح پاکستان کا قانون دوہری شہریت رکھنے کی بھی اجازت دیتا ہے اور قانون سازی سے لیکر قومی فیصلہ سازی تک دوہری شہریت رکھنے والے فیصلہ ساز ہر جگہ دکھائی دیتے ہیں۔ فرانسیسی مصنوعات کی شناخت‘ نشاندہی اور اُن کا بائیکاٹ کرنے کے ساتھ پاکستان کو چاہئے کہ وہ دوہری شہریت رکھنے کے قانون میں بھی ترمیم کرے اور پاکستان جیسے نظریاتی اور اسلام کے قلعہ ملک کی شہریت بھی خاص ہونی چاہئے۔ یہ کیسے ممکن ہے کہ کوئی شخص اسلامی جمہوریہ پاکستان کی شہریت بھی رکھتا ہو اور وہ کسی ایسے ملک کا باشندہ بھی ہو جس کے مذہبی عقائد و نظریات اسلام مخالف ہوں؟ سوچئے کہ اگر عشق رسول صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم میں لبریز ہو کر دینی غیرت کے مظاہرے کا مرحلہ آ چکا ہے جو کہ لازم و ضروری (واجب) بھی ہو چکا ہے تو اِس کا اجتماعی اسلوب کیا ہوگا اور کس طرح حکومت اور ہر پاکستانی کو اپنے اپنے حصے کا کام کرنا ہے۔