کیا کھائیں کیا نہ کھائیں

ہر چیز کی ایک عمر ہوتی ہے ‘اب کیاکہوں ‘کھانے کی بھی ایک عمر ہوتی ہے ‘جوانی میں تو جو کھا¶ پتھر ہضم والی بات ہے ۔ مگر بعض لوگ بچپن سے نکل تو جاتے ہیں ۔مگر بچپن سے نہیں نکلتے ۔سمجھتے ہیں جو کھائیں گے کھا لیں گے۔ جی ہاں درست تو ہے ۔ دانت ملے ہیں سو کھا¶ جو کھا¶۔ مگر سوچو توکھانے کے لئے دانتوں ہی کا ہونا ضروری نہیں ۔ نظام ہاضمہ کے درست ہونے کی بھی تو ضرورت ہے ۔پھر آپ کا معدہ بھی تو قبول کرے۔ اب ہر خوراک تو کھانے ہی کے لئے ہے۔ مگر ہر خوراک کھائی بھی تو نہیں جا سکتی۔ صرف دانتوں سے چبانا تو نہیں۔ چاول ہیں کتنی نرم غذا ہے ۔پھرکتنی حسین خوراک ہے ۔بڑے ضدی اور پرہیز پر قائم رہنے والوں کو چاول کے پلیٹ کے آگے توبہ توڑتے دیکھا ہے۔جوانی تھی تو ہر چیز کھانے کو جی بھی کرتا تھا او رکھا بھی لیتے تھے اور ہضم بھی ہو جاتا ۔اب تو ہر شے اگر کھانے کو دل کرے تو ضروری نہیں کہ کھابھی سکیں۔ مہنگائی الگ راہ کی رکاوٹ ہے ۔پھر معدہ کی سوجن جدا طو ر پر اچھے اچھے کھانوں کی طرف ہاتھ بڑھانے سے روکتی ہےُچالیس سے جوں پلٹتے ہیں تو کسی نہ کسی بیماری کے نرغے میں آ جاتے ہیں۔ کسی کو لو بلڈ پریشر کی شکایت ہے تو کسی کوہائی بلڈ پریشر سے سروکار ہے ۔ کسی کو شوگر کے مرض سے جی نہ چاہے بھی تعلق رکھنا پڑتا ہے ۔ پھر اس دوستی کو نبھاناپڑتا ہے۔گولیوں کے سہارے زندگی کی گزران کرنا پڑتی ہے ۔پھر اس عمر میں کھانے کی ہر چیز ہوتی تو حلال ہے مگر کھائی نہیں جاتی ۔ اگر کھا لیں تو مذائقہ نہیں ۔ مگر معدہ کے اندر پہنچ جائے تو قریب کے دوا کے سٹور سے یا تو چونے والا سیرپ لیں گے یا عرقِ پودینہ کے لئے حکیم کے پاس جانا ہوگا۔ وگرنہ گھرمیں چورن یا پھکی تو ضرور ہوگی۔پہلے صبح اٹھ کر گھر میںخواتین کے ساتھ اک ذرا یہ مشورہ بھی کرنا پڑتا کہ آج کیا پکائیں ۔مگر اب زمانہ بدل گیا ہے بلکہ ترقی کر گیا ہے ۔اتنی ترقی کہ زوال کی طرف مائل ہے ۔یعنی یہ کہ پکا تو لیں گے مگر کھائیں گے کیسے اور کھا لیں تو ہضم کیسے ہوگا ۔پھر اگر فرض کریں ہضم ہوگیا تو اس کے برے نتائج کے لئے بھی ذہنی طور پرتیار رہنا ہے ۔مگر سری پائے کھالیں اوجھڑی یا حلوہ پوری تو بھلے چنگے مریض کو بھی دل میں ڈر بیٹھ جائے گا کہ اب خدا جانے کیا ہوگا۔ وہ ذہنی طور پر خوفزدہ ہوتا ہے ۔ اتنا کہ بی پی ہائی نہ ہو ۔مگر تب بھی ڈر کے مارے ہائی محسوس ہوتا ہے ۔ بلکہ اگر چیک کروا¶ تو سچ مچ زیادہ ہوگا۔ ایسے میں بندہ کہا ںجائے۔کہتے ہیں ٹینشن نہ لو۔ مگر اس سے بڑی کیا ٹینشن ہوگی کہ دستر خوان پر سامنے انواع و اقسام کے کھانے چنے گئے ہوں اور آدمی کسی بیماری کے کارن ان کو ہاتھ لگاناکجادیکھنا بھی گوارا نہ کرے کہ یہ نہ ہو اس کی لذتِ خیالی کی مہک اور ٹچ سے بندہ اپنا پرہیز توڑنے کو تیار ہو جائے۔اب تو کھانے کی طرف ہاتھ بڑھانے سے پہلے ایک سیکنڈ سوچنا پڑتا ہے ۔ مگر اچھے اچھے کھانوں کو دیکھ کربیماری میں پرہیز کے نامور لوگ بھی اپنے آپ کو بے بس سمجھتے ہیں۔ شوگر کے مریض چپکے سے میٹھے کی طرف ہاتھ بڑھائیں گے اور بلڈ پریشر والے مرغن غذا¶ں کو اشتہاکی نگاہوں سے دیکھیں گے۔ آخر بے صبرے ہو کرنہ آ¶ دیکھیں گے نہ تا¶ کھانے کے ڈونگوںاور خوان پر پِل پڑیں گے۔ جو ہوگا دیکھا جائے گا۔ ایسے بھی جانفروش اور سرفروش دیکھے ہیں کہ چاولوں کو دیکھا تو دل ہار بیٹھے ۔ ہم نے کہا بھائی آپ کو ڈاکٹر نے منع کیا ہے۔جواب دیں گے کہ پہلے چاول کھا لوں پھر مروں گا۔ خواہ ان کے سگے بھائی ڈاکٹر کیوں نہ ہو ں مگر وہ بھائی ہی کی دی ہوئی دوا کی دس ملی گرام کی ایک کے بجائے چار گولیا ںچاولوں کے بعد کھا لیں گے ۔پھر کمال یہ ہے کہ وہ اس سے ٹھیک بھی ہو جاتے ہیں۔معلوم نہیں کیا چکر ہے۔ ہم نے خود دل کے سرکاری وارڈ میں کھانے کے وقت مریضوں کو چاول تقسیم ہوتے دیکھا ہے ۔ ایک فرماتے ہیں اگر تم کو کوئی بولے کہ ان چاولوں سے پچ نکالی گئی ہے تم کھاسکتے ہوتب بھی نہیں کھانا ۔دوسرے علاج تجویز کرتے وقت فرماتے ہیں چاول کھا¶ چاول کھا سکتے ہو۔ اب کس کی مانیں اور کس کی نہ مانیں۔ویسے چاول کی ہر قسم تو کھانے کے لئے ہے ۔خواہ شولہ کیوں نہ ہو ۔مگر اس کے باوجود ہمارے پشوری بھائی تو میوہ چنے پر جان دیتے ہیں۔پشوری ہو او رمیوہ چنے والے چاولوں کی محبت دل میں نہ ہو پشوری نہیں کہلایا جا سکتا۔پھر یہ چاول دیگ کے ہوں اور گھر کے بجائے کسی ماہر باورچی نے بنا رکھے ہوں تو بس تن من دھن قربان کر کے ٹوٹ پڑنا ہے ۔سگریٹ پینے والوں کو نہیں دیکھا۔ہمارے بھائی بندہیں دل جگر ہیں ۔چار ہارٹ اٹیک ہوئے ۔ڈاکٹر ان کے پا¶ں نہیں پڑا مگرکہا سگریٹ نہیں پینا ۔مگر وہ سگریٹ پیتے ہوئے پائے گئے بلکہ سگریٹ نوشی میں گم ہیں۔ دوستوں نے بچوں نے رشتہ داروں نے منع کیا مگر کہاں ۔وہ کہتے ہیں سگریٹ چھوڑنا کون سا مشکل کا م ہے ۔جب پہلے بارہ مرتبہ چھوڑی تو ایک بار اور سہی چھوڑ دیں گے۔