پی ڈی ایم کے جانب سے گوجرانوالہ سے حکومت مخالف احتجاجی تحریک کے آغاز اور اس سلسلے میں منعقد ہونے والے پہلے احتجاجی جلسے میں اپوزیشن رہنماﺅں بالخصوص میاں نواز شریف کی دھوں دھار تقریر اور اسکے جواب میں وزیر اعظم عمران خان کا کنونشن سنٹر اسلام آباد میں ٹائیگر فورس کنونشن سے خطاب کے دوران اپوزیشن کو ٹف ٹائم دینے کے اعلان کی سیاہی بھی ابھی خشک نہیں ہونے پائی تھی کہ کراچی میں کیپٹن صفدر کی ڈرامائی گرفتاری اور آئی جی سندھ کے ساتھ پیش آنے والے واقعے نے حکومت اور اپوزیشن کے درمیان پہلے سے موجود سیاسی تناﺅ میںمزید اضافہ کر دیاہے ۔ پی ڈی ایم اپنے اہداف اور مقاصد کے حصول میں کس حد تک کامیاب ہو سکے گا اس سوال کاجواب ڈھونڈنے سے قطع نظر تا دم تحریر اکثر سنجیدہ حلقوں میں یہ سوال زیر بحث ہے کہ آیا یہ بھاری بھر کم اتحاد اپنا وجود برقرار بھی رکھ سکے گا یا نہیںکیونکہ اس اتحاد کا اب تک جو سب سے کمزورپہلو سامنے آیا ہے وہ اس اتحاد کی تمام جماعتوں کے درمیان باالعموم اور اس اتحاد کی بڑی جماعتوں کا باالخصوص ایک دوسرے پر عدم اعتماد ہے۔ ماضی کے قضیئے ادھیڑے بغیر اگر ان جماعتوں کے ایک دوسرے کے خلاف آزمائے جانے والے موجودہ بعض خفیہ اور بعض اعلانیہ داﺅ پیچ ہی کو مد نظررکھا جائے تو اس بات کو سمجھنا مشکل نہیں ہوگا کہ اس اتحاد کو اپنی منزل پر پہنچنے کیلئے ابھی ایک طویل اور دشوار گزار سفر سے گزرنا ہو گا۔ اس اتحاد کی قیادت مولانا فضل الرحمان کودینے بعد اپوزیشن اب واقعتا do or die کی پوزیشن پر آگئی ہے اور شایداسی لئے پی ڈی ایم کی قیادت ملک کی دو بڑی جماعتوں کی بجائے مولانا کی جھولی میں ڈالنے کا فیصلہ کیا گیا ہے۔ یہاں پی ڈی ایم کے بعض نقاد یہ سوال تواتر کے ساتھ اٹھا رہے ہیں کہ آیااس بات کی کیا گارنٹی ہے کہ پی ڈی ایم کی دونوں بڑی جماعتیں موقع ملنے پر مولانا صاحب کے ساتھ حسب سابق ہاتھ نہیں کریںگی گو اس حوالے سے فی الحال کسی حتمی نتیجے پرپہنچنا مشکل ہے لیکن اگر ان دونوں بڑی جماعتوں کے ماضی اور موجودہ حالات میں انکے گرد تنگ کئے گئے دائرے کو دیکھا جائے تو ان سے کوئی بھی بات بعید نظر نہیں آتی ہے جس کی طرف وزیر اعظم عمران خان مسلسل اشارہ بھی کررہے ہیں۔ دراصل یہ کوئی راز کی بات نہیں ہے کہ یہ دونوں بڑی جماعتیں سٹیٹس کو کی علامت ہیں اور انکے کردار کو مدنظر رکھتے ہوئے ان سے کسی انقلاب کی توقع رکھنا خام خیالی سے بڑ ھ کر اور کچھ نہیں ہوگا۔ یہاں ہمیں اس تلخ حقیقت کو بھی نظر اندار نہیں کرنا چاہئے کہ اپوزیشن کی دونوں بڑی جماعتوں کے بعض مشترکات کے علاوہ بعض کمزوریاں ایسی ہیں جو ایک دوسرے سے مختلف ہیں ۔اگر تھوڑا سا گہرائی میں دیکھا جائے تو پیپلز پارٹی کی تر جیحات اور مجبوریاں مسلم لیگ (ن) سے بعض معاملات میں مختلف نظر آئیںگی مثلاً پیپلز پارٹی کوآصف زرداری سمیت اپنے اکثر مرکزی رہنماﺅں کے خلاف نیب کے کیسزکے علاوہ ایک بڑا چیلنج سندھ حکومت کی شکل میں درپیش ہے جبکہ اسکے برعکس مسلم لیگ (ن)کا معاملہ پیپلز پارٹی سے قدرے مختلف ہے۔ مسلم لیگ(ن) نے ووٹ کو عزت دینے کا جو بیانیہ اپنایا ہے اس میں ووٹ کو عزت دینے سے زیادہ مسلم لیگ(ن) سے اقتدار چھننے کا غصہ اور نارضگی شامل ہے کیونکہ اگر بات واقعتا ووٹ کو عزت دینے کی ہوتی تو اب تک مسلم لیگ(ن) حقیقی معنوں میں ایک عوامی جمہوری جماعت بن چکی ہوتی کیونکہ اگر ایک پارٹی کی اپنی اندرونی صفوں میں ووٹ کو عزت دینے کا رواج نہ ہو تو آپ پھر کس دلیل کی بنیاد پر دوسروں سے یہ توقع رکھ سکتے ہیںکہ وہ آپکے مطالبے کو خوشی خوشی بہ سر وچشم تسلیم کرلیںگے۔مسلم لیگ (ن)کا بھی ان دنوں سب سے بڑا مسئلہ نیب اور وہاں اس کے زیر سماعت کرپشن کے درجنوں بھاری بھر کم مقدمات ہیں جس نے مسلم لیگ(ن) کی قیادت کو شدید دباﺅ میں رکھا ہوا ہے البتہ جہاں تک مولانا فضل ارحمان کاتعلق ہے اپنے ان دو بڑے پارٹنر کے ساتھ ان کی شراکت چونکہ تنی ہوئی رسی پر چلنے کے مترادف ہے اس لئے انہیں اچھی طرح معلوم ہے ان کے یہ دو بڑے پارٹنر چونکہ انہیں کسی بھی وقت ایک بار پھر چوراہے کے عین بیچ چھوڑکر اپنی راہ لے سکتے ہیں لہٰذا جب تک پی ڈی ایم کی اندرونی صفوں میں ایک دوسرے پر اعتمادبحال نہیں ہوگا تب تک اس سے کسی بڑے نتیجے کی توقع رکھنامحض خام خیالی ہوگی۔ اس طرح یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ موجودہ حالات میں سیاسی تناﺅ کو ایک حد تک رکھنا ضروری ہے تاکہ اندرونی اور بیرونی چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لئے قوم کو ایک جہت ملے اور یہی سیاسی قیادت کی اہم ذمہ داری ہے۔