سیکولرازم اور آزادی رائے؟

رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کے توہین آمیز خاکے چھاپنے کے معاملے پر فرانسیسی حکومت کے رویے سے چند سوالات پیدا ہوتے ہیں کہ کیا سیکولرزم آزادی رائے اور رواداری کا نام ہے یا مذہبی اور غیر مذہبی تعصب اور انتہاپسندی کا؟ کیا آزادی کا مطلب یہ ہے کہ بندہ جو چاہے بولے اور کرے یا اس کے ساتھ کچھ پابندیاں اور ذمہ داریاں بھی ہوتی ہیں؟ رسول کریم صلی اللہ علیہ وسلم کی ذات مبارک اور ان کی توقیر ہر مسلمان کےلئے دنیا و مافیہا سے افضل ہے۔ چنانچہ فرانس میں سرکاری سطح پر ان کے خاکے چھاپے جانے اور اسے آزادی رائے قرار دینے پر ہر مسلمان غم زدہ ہے۔ آپ کی توہین تو خیر بہت بہت بڑا جرم ہے، اللہ تعالیٰ کے کسی دوسرے پیغمبر، کسی بھی بزرگ ہستی، کسی رہنما بلکہ کسی عام انسان کی بھی توہین نہیں ہونی چاہئے اور ہر ایک کے جذبات، احساسات اور عقائد کا احترام کیا جانا چاہئے۔ سیکولرازم ہر شخص کو اپنی مرضی سے جینے، کوئی مذہبی عقیدہ رکھنے یا نہ رکھنے، پرامن بقائے باہمی اور روداری کوہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ جہاں تک آزادی کی بات ہے مطلق اور لامحدود آزادی کہیں بھی دستیاب نہیں۔ معلوم انسانی تاریخ سے جدید دور تک انسان کے قول و فعل پر کچھ قدغنیں ہمیشہ سے موجود رہی ہیں۔آزادی اظہار کے نام پر کسی کے خلاف نفرت پھیلانے اور کسی کے عقائد اور اقدار کی بنیاد پر انہیں تضحیک کا نشانہ بنانے کا حق کسی شخص کو حاصل ہے نہ کسی گروہ یا ریاست کو۔ رائے کی آزادی کا ہر گز یہ مطلب نہیں ہے کہ دوسرے انسانوں کے جذبات کو مجروح کیا جائے۔ آزادی رائے اور نفرت انگیز گفتگو میں فرق ہے اور اقوام متحدہ کے سیکرٹری جنرل کی جانب سے جاری پلان آف ایکشن میں مسلمانوں کے خلاف نفرت انگیز گفتگو کو بھی ہیٹ سپیچ میں شامل کیا گیا ہے۔ جس قول یا فعل سے دوسرے انسانوں کے جذبات و احساسات مجروح ہوں کوئی انصاف پسند اس کی وکالت نہیں کرسکتا۔دل آزاری کے انفرادی واقعات پہلے بھی ہوتے تھے لیکن اس بار فرانس کا صدر اس افسوسناک طرزعمل کی پشت پر کھڑا ہے۔ دراصل یورپ میں ایک لابی نے اسے انا، سیکولرازم کی بقا اور آزادی رائے کا مسئلہ بنادیا ہے۔ فرانس میں تیزی سے پھیلنے والے سفید فام نسل پرست اور دائیں بازو کے انتہاپسند تمام تارکین وطن بالخصوص مسلمانوں اور ان کی وجہ سے اسلام سے بھی شدید نفرت کرتے ہیں۔ پھر فرانس کا صدر غربت، پیلی جیکٹوں اور کورونا پر قابو پانے میں ناکام ہواہے۔ وہ فرانس کے ساٹھ لاکھ مسلمانوں کے خلاف تعصب پھیلا کر اپنی ناکامی چھپانا چاہتے ہیں۔ فرانس کے صدر نے ایک استاد، جو کلاس میں یہ خاکے دکھاتا تھا، کے قتل کے بعد ردعمل میں مسلمانوں اور اسلام کے خلاف بیانات دیئے، کچھ اقدامات اٹھائے اورمتنازعہ خاکے ایک بڑی عمارت پر آویزاں کروادئیے۔ ردعمل میں مسلمان فرانس پر تنقید، اس کا بائیکاٹ یا حملے کررہے ہیں۔ مگر مسلمانوں کو اپنے ردعمل کی بنیاد پر انتہاپسند اور فرانس کو اس ردعمل پر آزادی کا چیمپئن قرار دیا جارہا ہے۔ فرانس میں اگر کسی مسلمان نے قانون کی خلاف ورزی کی ہے تو اس کے خلاف وہاں کے قانون کے مطابق کارروائی کی جاسکتی ہے لیکن کسی ایک مسلمان کے عمل کی بنیاد پر تجاوز کرتے ہوئے پوری ملت کے جذبات و احساسات کا خون کرنا انتہائی افسوسناک ہے۔یادرکھنا چاہیے کہ فرانس کا طرزعمل نہ صرف سیکولرازم کے اصولوں کے منافی ہے بلکہ یہ دنیا میں نفرت، انتہاپسندی اور تہذیبوں کے درمیان تصادم کو بڑھادے گی۔ساری دنیا بالخصوص یورپی ممالک میں مقیم مسلمانوں کو بھی یاد رکھنا چاہیے کہ امریکہ، یورپ اور دیگر ممالک کے انتہاپسند یہی چاہتے ہیں کہ مسلمان ان واقعات پر ردعمل میں آکر سخت، پرتشدد اور غیر قانونی اقدامات اٹھائیں تاکہ ان سفید فام انتہاپسندوں کا اسلام مخالف بیانیہ، جس کے ذریعے وہ ناحق اسلام کو انتہاپسندی اور دہشت گردی سے جوڑتے ہیں، مزید مضبوط ہوجائے اور ان کی سیاسی طاقت بڑھے۔ اس لیے مسلمانوں کو ان جیسے واقعات پر اپنے جذبات و احساسات کا اظہار کرتے وقت پرامن، پرسکون، باوقار اور مدلل انداز اختیار کرنا چاہیے تاکہ انتہاپسندوں کی سازش ناکام ہو۔مسلمان ممالک کو مشترکہ اور متفقہ ردعمل دینے کےلئے او آئی سی کا اجلاس بلانا چاہیے جس میں پہلے فرانس سے بات چیت کرکے مسئلے کا حل نکالنا چاہئے۔ ایسا ممکن نہ ہوسکے تو پھر سب مسلم ممالک فرانس کا سفارتی اور معاشی بائیکاٹ کریں۔مسلم ممالک مشترکہ طور پر جنرل اسمبلی کا اجلاس بھی بلائیں اور ان جیسے واقعات کی روک تھام کیے ضروری قانون سازی کروائیں۔ ان واقعات کے مرتکب اور حمایتی افراد اور ریاستوں کے خلاف انسانی حقوق کی یورپی عدالت میں مقدمہ بھی دائر کر کیا جا سکتا ہے۔سوال یہ ہے کہ اگر سیکولرازم کے تحت متعلقہ لوگوں کے جذبات و احساسات کے احترام میں ہولوکاسٹ سے انکار پر پابندی لگائی جا سکتی ہے تو اسی دلیل سے توہین آمیز خاکے روکنے پر کیوں نہیں؟