یہاں تو کھانے کو روٹی نہیں ہے یہ لوگ ماسک کیسے خریدیں گے۔ پھر یہ لوگ ماسک کو ضروری بھی تو خیال نہیں کرتے۔کہا گیا ہے جو ماسک نہیں پہنے گا جرمانہ ہوگا جب یہاں روٹی کے لالے پڑے ہوں وہاں ماسک کی مشکل خریداری کو یہ لوگ کیسے راضی ہوں گے۔ جرمانہ تو موقع پر وہ دے گا جس کی جیب میں کچھ روپے تو ہوں۔ چلو ماسک نہ پہننے کا جرم ہے ۔ اسے حوالات میں روٹی تو ملے گی۔وگرنہ باہر نکلے تو باہر بھوک ہے ۔اس کے بچے اس سے روٹی مانگیں گے۔وہ خود کو بھوکا رکھے گا اور بچوں کے پیٹ کی آگ بجھائے گا۔مگر کچھ پاس ہو تو ایسا کرے گا۔ وگرنہ تو خودبھی بھوکا مرے گا اور بال بچوں کو بھی مانگے تانگے کے چند سکے مل جائیں گے ۔یہاں تو حال یہ ہے کہ پبلک کنگال حالت میں خالی جیب گھوم رہی ہیں ۔اگر کوئی جرمانہ دے نہ پایا تو اس کو حوالات میں ڈال دو ۔پھر کوئی ضمانتی نہ آیا تو جیل بھجوا دو۔ اس گرفتاری میں غریب کافائدہ ہے ۔اس کو تو خوشی مل گئی ہے ۔چلو کہیں سے روٹی پانی کا آسرا تو ہوا۔وہ تو جوق در جوق غول کے غول جیلوں میں جائیں گے۔ چلو چلو جیل چلو کے نعرے لگا لگا کر سلاخوں کے پیچھے جانے کو ترجیح دیں گے۔ان کے لئے کوئی اور سزا تجویز ہونا چاہئے۔ جن سے سزا کے اصل معنی ان کی سمجھ میں آ جائیں ۔یہ تو سزا نہیں الٹا انعام ہے اور جزا کی صورت ہے ۔اس وقت تو ارضِ وطن کا حال کچھ نہ پوچھو ۔مہنگا ئی کو تو انھوں نے بھی قبول نہیں کیا جو حیثیت والے ہیں ۔پھر وہ بھی پریشان ہیں ۔ ایسی صورتِ حال میں ایک مفلوک الحال آدمی جو رات کو خودبھی بھوکا سوتا ہے اور بال بچوں کو بھی جھوٹی تسلیاں دے کر جیسے تیسے سلاتا ہے وہ کیا کرے گا۔بجلی روز بروز مہنگی ہو رہی ہے ۔بجلی کا بل سامنے پڑا ہے اور وہ جمع نہیں کروا سکتا۔گیس کے بل آجاتے ہیں اور چولہوں پہ برف جمی ہے ۔چولہا آن کرو تو گیس کہاں۔ پھر کہا گیا ہے کہ دوسال گیس نہیں ہوگی ۔ذرا گزارا کرنا ہوگا۔مگر آگے کون سی گیس موجود تھی جو اب نہیں ہوگی اور ہمیں گزارا بھی کرنا ہوگا۔جس طرف منہ اٹھا¶ یہی فریاد کانوں کے پردوں میں شگاف ڈالتی ہے کہ بجلی نہیں گیس نہیں ۔ خوش قسمت علاقے ہیں جہاں بجلی بھی ہوتی ہے اور گیس بھی دستیاب ہے۔ یادونوں ہیں یا دونوں میںسے ایک چیز بھی مہیا ہے۔ایک عزیز کے گھر گئے تو وہاں دھڑا دھڑ چولہا جل رہا تھا ۔ ہم نے کہا آپ کے ہاں گیس کا مسئلہ تو نہیں ۔انھوں نے جواب دیا شکر ہے نہیں ہے ۔میں نے کہا تھوڑی سی گیس ہمیں بھی دے دو کہ گھرکے دروازے تک لے جائیں۔ہم نے تو سلینڈر جلا جلا کر خاک کر ڈالے مگر کام چلتا نہیں مشکل سے بیساکھیوں کے سہارے چلانا پڑتا ہے ۔منہ ہاتھ دھونے تک تو ٹھنڈے پانی سے گزراکرنا ہے ۔ مگر نہادھو کر شادی کی تقریبا ت میں شرکت کرنا مشکل ہو جاتا ہے ۔اگر شادی میں کوئی ایسا مالدار شخص نظر آئے کہ جس کے کپڑے استری نہ ہوں تو اس پر ناراض ہونے کی اور حیرانی کی ضرورت نہیں ہے ۔ سمجھ جائیں کہ ان کے ہا ںآتے آتے بجلی چلی گئی ہوگی۔یا اگر کوئی شادی بیاہ میں کھانے کے موقع پر بے صبری کا مظاہر ہ کرے تو ماتھے پر تیوری ڈالنے کی ضرورت نہیں ۔جان لیںکہ ان کے گھرمیں کھانے کا سامان ہوتے سوتے کھانا نہیں پکایا گیا ہوگا۔ کیونکہ چولھے میں گیس موجودہوگی تو ہنڈیا دھریں گے۔کہتے ہیں کاٹھ کی ہنڈیا چولھے پر نہیں چڑھتی ۔ مگر ان دنوں گیس کے نہ ہونے کے کارن یہ محاورہ غلط ثابت ہو چکا ہے ۔اب تو لکڑی کی ہانڈی بھی چولھے پر چڑھا دو تو اس میں رتی برابر نقصان نہیں ہوگا۔ نہ آگ جلے گی اور نہ ہی ہانڈی پکے گی۔ یعنی سانپ نہیںمرے گا اور لاٹھی بھی ٹوٹ جائے گی۔ اب تو پرانے محاروںکے اس زمانے میں نئے معنی ایجاد ہو چلے ہیں۔خطِ غربت سے نیچے زندگی گزارنے والے زیادہ ہو رہے ہیںخطِ غربت جانے کہاں واقع ہے جس کو ایک لمبی اور دور چلی گئی چھت سمجھ کرہمارے آس پاس کے لوگ روٹی کپڑا مکان کی ضرورتوں کو ساتھ لے کراس چھت تلے جا پڑے ہیں اور زیادہ تر افراد کی زندگی لوازمات اور تکلفات دونوں سے یکسر عاری ہے یعنی ان کو سانس کی ڈور کو برقرار رکھنے میں مشکل کا سامنا ہے ایسے میں اگر ان کو کوئی نجات کا راستہ ملتا ہے تو اس پر وہ افسوس کی بجائے خوشی کا اظہار کرینگے قانون بنانے کےلئے بھی عقل کی ضرورت ہے ۔وہ سزا جس سے مجرم کو الٹا صحت ملے اور اطمینان حاصل ہو سزا تو ہوئی الٹا اس کے لئے ایک انعام کی سی صورت ہوگئی۔ اس لئے ضروری ہے کہ موقع اور محل کی مناسبت سے فیصلہ کیا جائے۔