مثل ہے کہ جب اُونٹ سے پوچھا گیا کہ تمہارے لئے ڈھلوان سے اُترنا آسان ہے یا اُس پر چڑھائی تو اِس ’صحرائی جہاز‘ کے لئے یہ دونوں ہی پسندیدہ نہیں تھے‘ بس یہی سوچ اَمریکہ کے صدراتی اُمیدواروں سے متعلق پاکستان کی ہے۔ ایک طبقہ بھارت نواز ٹرمپ سے ممکنہ نجات ملنے کے لئے پراُمید ہے اور دوسرا طبقہ اِسے پاکستان کے لئے مفید نہیں سمجھتا لیکن دونوں صورتوں میں پاکستان کے حالات ایسے نہیں کہ جب ماضی (اُنیس سو اَسی کی دہائی) کی طرح سرکاری طور پر رپبلکن صدارتی امیدواروں کی حمایت کی جائے۔ موجودہ خارجہ پالیسی یہ ہے کہ امریکہ انتخابات کے حوالے سرکاری و سیاسی حلقے اپنی پسند و ناپسند کا کھل کر اظہار نہ کریں۔تحریک انصاف کے حلقوں میں غالب سوچ یہ پائی جاتی ہے کہ اگر ٹرمپ دوسری مرتبہ بھی صدر منتخب ہو جائیں‘ تو یہ پاکستان کے حق میں بہتر اور اِس سے پاک امریکہ تعلقات میں تسلسل رہے گا۔ پاکستان کی نظر سے موجودہ امریکی قیادت کا اعتماد خاص اہمیت کا حامل ہے بالخصوص جب ہم افغانستان میں قیام امن کی بات کرتے ہیں اور طالبان کے ساتھ مذاکرات میں امریکہ کو پاکستان کی جانب سے فراہم کی جانے والی سہولت کاری کو دیکھا جائے تو یہ حقیقت واضح ہو جاتی ہے کہ صدر ٹرمپ ہی کے دور اقتدار کے دوران پاکستان اور امریکہ کے درمیان ’عملی رابطوں‘ کو تقویت ملی جس سے پاکستان اور واشنگٹن کے روابط میں اضافہ ہوا۔ یہی وجہ ہے کہ ’آف دی ریکارڈ‘ دیئے جانے والے دلائل میں صدر ٹرمپ کے دوسری مرتبہ صدر بننے کو پاکستان کے حق میں مفید قرار دیا جاتا ہے تاہم ٹرمپ کے مدمقابل صدارتی امیدوار ’جو بائیڈن‘ بھی کم اہم نہیں جو جنوب ایشیائی خطے کی سیاست سے نہ صرف بخوبی واقف ہیں بلکہ وہ افغانستان سے گہری شناسائی بھی رکھتے ہیں اور افغانستان میں قیام امن کے عمل میں شریک بھی رہے ہیں۔ حال ہی میں جوبائیڈن نے اسلام (بطور مذہب) اور مسلمانوں سے متعلق جن ہمدردانہ خیالات کا اظہار کیا اور مسلمانوں کو اپنی حمایت کا یقین دلایا‘ پاکستان کو اِس پیشرفت پر نظر رکھنی چاہئے کیونکہ ایک طرف وزیراعظم عمران خان عالمی سطح پر ’اِسلاموفوبیا‘ میں کمی کے لئے متحرک ہیں تو دوسری طرف یقینا اِس میں تخفیف کے اُس امکان پر نظر رکھے ہوں گے جو صدراتی اُمیدوار جوبائیڈن کی صورت روشن (واضح) دکھائی دے رہا ہے اور اگر امریکہ میں مسلمانوں اور بالخصوص پاکستانی نژاد مسلمانوں کی حمایت و پسندیدگی کو دیکھا جائے تو اُن کی اکثریت ’جوبائیڈن‘ کی حمایت کر رہی ہے اور اِسی سے ایک خونیں تصادم کا اِمکان بھی منڈلا رہا ہے کہ اگر صدر ٹرمپ کامیاب نہ ہوئے تو اِس سے اَمریکہ کی کئی ریاستوں بشمول بڑے شہروں میں فسادات پھوٹ سکتے ہیں!پاکستان کو ’وائٹ ہاو¿س (اَمریکہ کی سیاسی) حکمت عملیوں‘ کے حوالے سے زیادہ خوش فہمی کا شکار نہیں ہونا چاہئے کیونکہ حقیقت یہ ہے کہ صدر اَمریکہ کوئی بھی قومی سیاسی و دفاعی اہداف جوں کے توں برقرار رہتے ہیں جن کا مرکزی نکتہ دنیا بھر پر تسلط قائم رکھنا ہے۔ چین پاکستان اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے اور چین کی جانب سے ’بیلٹ اینڈ روڈ اِنشی ایٹو‘ کا حصہ بننے کے بعد بھی اگر پاکستان یہ سمجھتا (گمان رکھتا) ہے کہ امریکہ کی سیاسی و عسکری قیادت اِس کے بارے میں مثبت رائے اور سوچ کی حامل ہے تو یہ بات خود کو دھوکہ دینے کے مترادف ہے‘ جو بائیڈن کی کامیابی کا عملی طور پر یہ مطلب ہو گا کہ پاکستان کے اردگرد خطے میں اُن مسائل کا ادراک کیا جائے جو امریکہ کے غلط فیصلوں کی وجہ سے پیدا ہوئے ہیں اور سب سے بڑھ کر یہ کہ جو بائیڈن کم سے کم صدر ٹرمپ کی طرح ایک ایسی شخصیت نہیں ہوں گے جو اپنے فیصلوں پر ڈٹ نہ سکیں اور اُن کے فیصلوں کی پائیداری کے بارے میں کوئی بھی بات کہنا ممکن نہ ہو۔ عالمی سیاست ہو یا داخلی طرزحکمرانی قیادت کے لئے ضروری ہوتا کہ وہ اپنے قول و فعل اور تحریری معاہدوں کی پاسداری کرے۔ جس انداز میں صدر ٹرمپ نے جمہوری اسلامی ایران سے ہوئے عالمی معاہدے کو یک طرفہ طور پر اور بلاجواز و اشتعال ختم کیا‘ اُس سے پاکستان کو ہوش کے ناخن لینے چاہیئں۔ عالمی سیاست میں کچھ بھی قابل اعتماد (پائیدار) نہیں ہوتا‘ ہر ملک اپنے مفادات کے لئے تعلقات میں گرمجوشی اور سردمہری کا مظاہرہ کرتا ہے اور یہی وہ نکتہ ہے‘ جو صدر ٹرمپ کی سوچ اور طرزعمل کو ناقابل بھروسہ جبکہ جو بائیڈن پر کسی حد تک انحصار کرنے جیسی اُمیدیں وابستہ کرنے کی دعوت دے رہا ہے۔