قبائلی علا قوں کی 7ایجنسیوں کے ساتھ فرنٹیر ریجنز کے نام سے الگ پہچان رکھنے والے علا قوں کو خیبر پختونخوا میں ضم کرنے کے بعد ضم اضلاع کا نیا نام دیا جا رہا ہے ان کے علا وہ کوہستان اپر اور چترال اپر کے نام سے دو مزید اضلاع بنا ئے گئے ہیں اور تما م نئے اضلا ع میں انتظا می دفاتر کا قیام مو جودہ صو بائی حکومت کےلئے ایک امتحا ن اور ازما ئش ہے ایک ضلع میں 34صو بائی دفاتر اور 12وفاقی دفاتر کو جگہ دینا ، ان کے نظم و نسق کو سنبھا لنا اور افرا دی قوت مہیا کرنا آسان کام نہیں اس کام میں انتظامی امور کی مہارت کے ساتھ ما لی وسائل بھی بروئے کار آتے ہیں اور جہاں مالی وسائل کی بات آتی ہے وہاں ہزاروں طرح کی رکا وٹیں راستے میں حا ئل ہو جا تی ہیں جنو بی وزیر ستان میں لدھا سے کا نی گورم یا شما لی وزیر ستان میں میر علی سے میران شاہ جا تے ہوئے کسی جہان دیدہ بزرگ یا تعلیم یا فتہ نو جوان سے گفتگو کا مو قع ملے تو 1992کا تاجکستان اور دوشنبہ یا د آجا تا ہے 1992ءمیں سویت یونین کے ٹوٹنے کے بعد تاجکستان کو کمیو نسٹ نظام کی پا بندیوں سے آزادی ملی ریڈیو ، ٹیلی وژن اوراخبارات سے معلوم ہوتا تھا کہ بہت اچھا ہوا لیکن دیہات اور شہروں میں پرانی سہولیات ختم ہونے کے بعد نئی سہو لتیں نہیں آئی تھیںلو گ کہتے تھے اس آزا دی سے پرا نا سسٹم بہتر تھا با ہر سے آنے والا سیاح کہتاتھا صبر کرو نئے سسٹم کو جڑ پکڑ نے دو پھر تمہیں ساری سہو لیات پہلے سے بہتر حالت میں ملیںگی مگر اس بات کا نہ بوڑھوں کو یقین آتا تھا نہ جوا نوں کو بھروسہ ہو تاتھا اکتو بر 2020 میں وزیر ستان کے دونوں حصوں میں عوامی رائے کا ایسا ہی حال ہے یہ بات درست ہے کہ فرنٹیر کرائمز ریگو لیشن کی سختیوں سے آزادی مل گئی ، فاٹا کا انگریزی نام بدل گیا‘ خا صہ دار کی جگہ پو لیس کا نام آگیا قانون ابھی تک نہیں آیا پو لیٹکل تحصیلدار کی عدالت کے مقابلے میں جج کا نام سننے میں آیا مگر جج کی عدالت نہیں آئی ،ہسپتال کا نا م سننے میں آیا تھا علا ج معا لجہ کا نظام نظر نہیں آیا سکو لوں اور کا لجوں کا نام سنا تھا سکول یا کا لج دیکھنا اب بھی نصیب نہیں ہوا باہرسے آنے والا سیاح وزیر ،محسود اور داوڑ کو بمشکل قائل کرتا ہے کہ آہستہ آہستہ سب کچھ ہو جائے گا ” گھبرانا نہیں “ جب آپ جمرود اور لواڑگئی کے با زاروں میں لو گوں سے ملتے ہیں تو صورت حال آپ کے قا بو میں نہیںرہتی ایک آفریدی اور شنواری طرح طرح کی مثا لیں دے کر آپ کو لا جواب کر دیتا ہے وہ کہتا ہے حکومت ہمارے ہسپتا ل میں مو جو د مشینری کو کار آمد کیوں نہیں بنا تی ؟ ہمارے ہاں مو جو د سکول میں اسا تذہ کی آسا میاں کیوں نہیں دیتی ؟ ان جیسے سوالات کا آپ کے پا س کوئی جواب نہیں ہوتا ۔ ایک سیا ح کے پا س ایسی باتوں کا نہ جواب ہوتا ہے نہ علا ج ہو تا ہے ایسی باتیں دکھ ، افسوس اور رنج کی کیفیت میں اضا فہ کرتی ہیں 31مئی 2018کو فاٹا کا انضمام عمل میں آیا جن 7ایجنسیوں کو فاٹا کا نام دیا جاتا تھا ان کا کل رقبہ 27ہزار مربع کلو میٹر ہے ان کی آبادی 50لاکھ ہے ان کی سرحدیں افغا نستان کے صوبہ جات کونڑ ، ننگر ہار ، پکتیا، خوست اور پکتیکا (Paktika) سے ملتی ہیں ہمارے ہاں اپر کوہستا ن اور اپر چترال کے نئے اضلاع کا حال بھی ضم اضلاع سے مختلف نہیں پرانے ضلع نے ان کو عاق کر دیا ہے نئے ضلع نے ان کو گودلینے کا فریضہ انجام نہیں دیا اب یہ تین میں رہے نہ تیرہ میں حکومت کہتی ہے کہ ضم شدہ ضلع ہو یا نیا ضلع ، اس میں جان ڈالنے کےلئے ایک ضلع کو کم از کم 80کروڑکا غیر تر قیا تی فنڈ اور کم سے کم 2ارب روپے تر قیا تی بجٹ چاہئے‘ اتنے وسائل کہاںسے آئیں گے‘ ، کچھ تجربہ کار ریٹائرڈ سینئر بیوروکریٹس کا مشورہ ہے کہ ایک کام پہلے ہونا چاہئے تھا جو نہیںہوا انضام سے پہلے فاٹا سکرٹریٹ کے تما م وسائل پشاورکے ورسک روڈ ،سول سکرٹریٹ اور مال روڈ یا سٹیڈیم روڈ سے متعلقہ قبائلی اضلاع میں منتقل کرنے کی ضرورت تھی اس کے بعد تر جیحات کا تعین کر کے مر حلہ وار وسائل فراہم کرنے تھے مو جو دہ حا لات میں بہت سے کام اضا فی وسائل کے بغیر دستیاب فنڈ سے ہو سکتے ہیں مثلاً عدالتوں کو فعال کر کے انصاف کی فراہمی کا نمو نہ قبائلی عوام کو دکھا نے کے لئے قریبی ڈویژنوں کے اضلاع سے ایک یا دو جج عارضی طور پر ضم اضلاع کو دئیے جا سکتے ہیں اس پر اضا فی اخراجا ت نہیں آئینگے اسی طرح پولیس سٹیشنوں کو قریبی ڈویژن اور اضلاع کے ریجنل پو لیس آفیسر یا ڈی پی او کی وساطت سے کم سے کم اخراجات میں فعال کیا جاسکتا ہے البتہ ہسپتالوں‘سکو لوں اور کا لجوں کے لئے فنڈ کی ضرورت پڑیگی بنیادی ڈھا نچے کے لئے بجٹ کی ضرورت پڑے گی یہ کام مر حلہ وار انجام دیئے جا سکتے ہیں ضم اضلاع یا نئے اضلاع کے عوام کو اسی بات کا احساس دلا نے کی ضرورت ہے کہ ان کے مسائل حل کرنے پر کام ہورہاہے ۔