گلگت بلتستان کے 73ویں قومی دن کے موقع پر عبوری صوبے (صوبائی حیثیت) کا اعلان دیرینہ مطالبہ تھا جسے سلامتی کونسل (اقوام متحدہ) کی قراردادوں کو سامنے رکھتے ہوئے کیا گیا ہے۔ آزاد کشمیر اور گلگت بلتستان کے مکین خود کو ”پاکستانی“ کہلانے پر فخر کرتے ہیں۔ مقبوضہ وادی میں الحاق پاکستان کی تحریک اسی طرح مقبول اور زوروں پر رہی ہے جس طرح بھارت سے آزادی کی۔ ان کی قربانیوں کا مقصد ہی بھارت سے آزادی اور پاکستان کے ساتھ الحاق ہے۔ پاکستان کا شروع سے مو¿قف رہا ہے کہ کشمیر میں ”استصواب رائے“ کرایا جائے‘ کشمیری اگر بھارت کے ساتھ بھی جانا چاہیں تو یہ اُن کا حق ہے۔ پاکستان کا مو¿قف اس اعتماد کا غماز ہے کہ کشمیر میں مسلمان اکثریت میں ہیں اور وہ کبھی رائے شماری میں بھارت کے ساتھ الحاق پر تیار نہیں ہوں گے جس کا بھارت کو بخوبی ادراک ہے۔ اسی لئے وہ استصواب رائے پر تیار نہیں ہوتا۔ کشمیر میں آزادی کا توازن اپنے حق میں کرنے کیلئے بھارت نے پانچ اگست دوہزاراُنیس کو آئین میں ترمیم کرکے سازش کی۔ بھارت نے مقبوضہ کشمیر کو اپنی ریاست کا درجہ رکھا ہے اور لداخ کو ’یونین ٹیریٹری‘ کا حصہ بنایا ہے جبکہ آزاد کشمیر کی حیثیت وہی ہے جو پہلے تھی۔ پاکستان نے گلگت بلتستان کو خودمختار صوبہ بنانے کی تیاری کر لی ہے تاکہ وہاں کے مکینوں کی زندگی آسان ہو اور انہیں اپنے فیصلوں میں خودمختاری حاصل ہو۔ بھارت کا اقدام اور پاکستان کی کوشش ایک ہی سکے کے دو رخ نہیں بلکہ یہ الگ الگ ہیں اُور انہیں بھارت کے پانچ اگست والے مذکورہ شب خون سے جوڑ کر نہیں دیکھا جا سکتا۔پاکستان گلگت بلتستان اور آزاد کشمیر میں رہنے والوں کے انسانی حقوق کا احترام کرتے ہوئے مکمل آزادی و خودمختاری دے چکا ہے اور اِسی نسبت سے گلگت کا قومی دن بھی باقاعدگی سے منایا جاتا ہے۔ گلگت میں انتخابی میدان سجا ہوا ہے۔ انتخابی مہمات عروج پر ہے۔ تمام سیاسی جماعتیں گرم جوشی سے انتخابی مہم میں حصہ لے رہی ہیں اور اِسی سلسلے بلاول بھی گلگت بلتستان کے دورے پر ہیں‘ جو انتخابی اجتماعات سے خطاب میں گلگت بلتستان کو الگ صوبہ بنانے کے اعلان کا اعادہ کررہے ہیں۔ خوش آئند ہے کہ پیپلزپارٹی کی جانب سے وزیراعظم عمران خان کے گلگت بلتستان کو صوبہ بنانے کے اعلان اور اِس سلسلے میں ہوئی پیشرفت کی مخالفت نہیںکی گئی البتہ انتخابات کے موقع پر اس طرح کے اعلان کو ہدف تنقید ضرور بنایا گیا ہے۔ گلگت کو صوبہ بنانے پر تمام سیاسی جماعتوں میں عمومی اتفاق رائے پایا جاتا ہے تاہم اس اتفاق رائے میں زیادہ سے زیادہ ہم آہنگی کی ضرورت ہے۔ اصولی طور پر یہ معاملہ پارلیمنٹ کے سامنے رکھا جانا چاہئے اور اِس سلسلے میں جہاں کہیں عدلیہ کے کردار کی ضرورت پڑے وہاں عدلیہ سے رجوع کرنے میں بھی حرج نہیں تاکہ صوبہ بنانے کا عمل مکمل آئینی و سیاسی طور پر آگے بڑھ سکے۔ وقت ہے کہ سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کی مخالفت میں سیاسی پوائنٹ سکورنگ سے گریز کرتے ہوئے یکجہتی کا مظاہرہ کریں اور ایک ایسے عملی کردار کو ادا کرنے کی کوشش کریں‘ جو پاکستان کے وسیع تر مفاد میں ہے۔