قلعہ سکر دو کا فا تح

 گلگت بلتستان کی آزادی کا ہفتہ ہر سال یکم نو مبر سے 7نو مبر تک منا یا جا تا ہے اس تاریخ کی اہمیت یہ ہے کہ ڈوگر ہ راجہ ہری سنگھ کے آ خری گورنر گھسارا سنگھ کو گرفتار کر کے گلگت کے مر کزی قلعے پر پا کستان کا سبز ہلا لی پر چم لہرا یا گیا تھا یہ یکم نومبر 1947کا واقعہ ہے سکر دو کا قلعہ 14اگست 1948کو فتح ہو ا دونوں کے درمیاں 10ماہ کا وقفہ ہے تو اس کی معقول یا کسی حد تک نامعقول وجہ بھی ہے وجہ یہ ہے کہ سکردو کا سب سے بڑا قلعہ کھر فو چو ڈوگرہ فوج کے پا س تھا کشمیر اور گلگت بلتستان کی آزادی کےلئے پو رے خیبر پختونخوا سے رضا کاروں کے قافلے محا ذ پر پہنچ گئے تھے تراگبل‘گریز‘ کار گل پلوائی‘ سکردو ‘استور ‘ دیا مر اور دوسرے محا ذوں پر جنگ جا ری تھی اس جنگ کے بے شمار ہیرو اور سورما آج بھی یا د کئے جا تے ہیں ان میں کرنل حسن خان ، میجر با بر خان اور کرنل مطا ع الملک کے نام بچے بچے کی زبان پرازبرہیں آزادی کی جنگ چھڑ گئی تو ہمسایہ ریاستوں میں سے چترال کی ریا ست کے مہتر مظفر المک نے رضا کاروں کے 3دستے روانہ کئے ایک دستہ شہزادہ برہان الدین کی قیادت میںکارگل کے محاذ پر بھیجا گیا دوسرا دستہ شہزادہ میجر غلام محی الدین کی قیا دت میں تراگبل کے محا ذ پر بھیجا گیا ، دونوں دستے درہ لواری عبور کر کے نوشہرہ کے راستے محا ذ پر گئے ، تیسرا دستہ شہزادہ کرنل مطاع الملک کی قیا دت میں درہ شندور کے راستے گوپس اور گلگت سے ہو کر 19دنوں کی مسافت کے بعد سکر دو پہنچا ان رضا کاروں کے علا وہ چترال سکا ﺅٹس کا ایک دستہ میجر محمد طفیل (نشان حیدر ) اور لیفٹننٹ عبد الرﺅف کی قیا دت میں استور پھلوائی کے محا ذ پر بھیج دیا گیا اس دستے کا سگنل آپریٹر اشرف خان 97سال کی عمر میں بقید حیات ہےں اور صحت مند زندگی گزار رہا ہے ایف سی این اے کے کمانڈر میجر جنرل سلطان محمود خان نے گزشتہ عید پر ان کو قیمتی تحائف بالیم لاسپور میں ان کے گھر پر بھیجے اور ان کےلئے نیک خواہشات کا اظہار کیا کرنل مطاع الملک نے ریڈیو پا کستان چترال کو تفصیلی انٹر ویو دیا ہے نیز اپنی یا د داشتوں پر مبنی خوب صورت تحریر ڈگری کالج گلگت کے مجلہ ہندو کش قراقرم میں شائع کرائی ہے مولا نا حق نواز نے اپنی کتاب جنگ آزادی گلگت بلتستان میں اس مجا ہد اسلام کے کارناموں کا تفصیلی ذکر کیا ہے چترال سے رضا کاروں کا یہ دستہ جنوری 1948میں سکر دو پہنچا اس دستے نے پہلے کھر منگ ، شگر گانچھے اور خپلو کی وادیوں سے ڈوگرہ فوج کو نکا لا دشمن نے سکر دو کے مر کزی مقام پر کھر فوچو کے قلعے کو اپنا ہیڈ کوارٹر بنا دیا کر نل ایس کے تھا پا ، کپٹن گنگا سنگھ‘ کپٹن پر بہ لال اور لیفٹننٹ اجیت سنگھ کیساتھ ڈوگرہ فوج قلعے میں محصور ہو گئی اس اثنا ءمیں مجاہدین کے ہراول دستے نے قلعے کا صدر دروازہ توڑ دیا کرنل تھا پا اور کپٹن گنگا سنگھ کو گرفتار کر کے قلعے پر پا کستان کا سبز ہلا لی پر چم لہرا یا کپٹن گنگا سنگھ کے خلاف جنگی جرائم کی بے شمار شکا یتیں تھیں ان پر مقدمہ چلا یا جارہا تھا راولپنڈی سے تار بھیجا گیاکہ قیدی افسروں کو پورے اعزاز کے ساتھ ایک جہا ز میں راولپنڈ ی روانہ کیا جائے کرنل مطاع الملک نے تار ملتے ہی کپٹن گنگا سنگھ کو فوراً گولی مارنے کا حکم دیا اور تار کے جواب میں لکھا کہ ”کپٹن گنگا سنگھ کو سزائے موت دی گئی ہے کرنل تھا پا کےلئے جہاز بھیج دو “ گلگت بلتستان کی آزادی کا ذکر جب بھی آتا ہے قلعہ کھر فو چو کا نام بھی آتا ہے اسکو کاغذات میں کھریچو بھی لکھا جا تا ہے یہ گلگت بلتستان کے ان تین قلعوں میں میں سے ہے جن میں مسلمانوں نے ڈوگرہ فوج کو شکست دی ان میں سے ایک قلعہ مڈوری یا سین ہے قلعہ مڈوری یا سین کا واقعہ 1862ءمیں پیش آیا تھا قلعہ گلگت کا واقعہ 1947میں رونما ہوا جبکہ قلعہ کھرفو چو کا واقعہ 1948ءمیں پیش آیا گلگت بلتستان کی انتظا میہ نے غیر سر کاری تنظیموں اور عالمی عطیہ دہندگان کی مدد سے ان قلعوں کو دوبارہ تعمیراور تزین وارائش سے مزین کر کے سیا حوں کےلئے پر کشش بنا دیا ہے مگر قلعہ خپلو ‘قلعہ شگر ‘قلعہ التیت اور قلعہ بلتیت البتہ ان قلعوں کو نظر انداز کر دیا ہے جہاں ڈوگرہ فوج کے خلاف مزا حمت ہوئی آج قلعہ گلگت ، قلعہ مڈو ری اور قلعہ کھر فو چو کے کھنڈرات میں ما ضی کی تاریخ کے سارے دریچے بند ہو گئے ہیں چند سال بعد ان کھنڈرات کی دیواریں بھی معدوم ہو جائیں گی۔