دو ایک روز پہلے سے موسم میں یخی کچھ زیادہ ہو گئی ہے ۔رات سورج کی روشنی بجھ جانے کے بعد اور سویرے سورج کی روشنی نمودار ہونے سے پہلے خاصی ٹھنڈ ہوتی ہے۔اب تو دسمبر کے مہینے کے آنے تک بارشوں کی توقع نہ رکھیں۔ کیونکہ موسمیات والوں نے کھلم کھلا فرما دیا ہے کہ چالیس دنوں تک بارشوں کا ہوناان کی کتاب میں نہیں۔ مگر کیا پتا قدرت اپنا رنگ دکھلادے۔ کیونکہ بارش ہونے ہی سے سموگ میں کمی واقع ہو سکتی ہے۔ہم تو بارش نہ ہوتو روتے ہیں اور بارش ہو اور ختم نہ ہو تب روتے ہیں۔ گویا ہم اپنے حساب سے کائنات کا نظام چلانا چاہتے ہیں۔ حالانکہ اس دنیا کا انتظام قدرت کے ہاتھ میں ہے ۔سموگ کے دنوں میں کھڑکیاں اور دروازے بند رکھیں ۔ کیونکہ سانس کے مریضوں کی بیماری زیادہ نہ ہو جائے ۔پھر یہ عارضہ کہیں کورونامیں تبدیل نہ ہو ۔ ایک مصیبت تو نہیں کہ جس کے آگے ہم نے سینہ تان رکھا ہے۔ سموگ کے دنوںمیں درختوں کے مسام بند ہو جاتے ہیں جن سے آکسیجن نہیں نکلتی ۔ پھر درخت بھی ہمارے ہاں کہاںہیں۔ کاٹ رہے ہیں اور بار بار پے درپے متواتر درختوں کی تعداد میں کمی زیادہ ہو رہی ہے۔زندگی کا پہیہ رک تو نہیں سکتا۔ مگر یہ نہ ہو کہ صبح صبح سکول جانے والے بچوں کوبچانے کے لئے کورونا سے نہ سہی سموگ کی وجہ سے ان کے سکول بند کرنا پڑیں۔نیند سے جلدی اٹھنے والے اور کام کاج کے لئے گھر سے جلدی نکلنے والے اس خوش فہمی میں نہ رہیں کہ کھلے علاقوں میں دھند کا بسیرا ہو چلا ہے ۔یہ سب دھوکا ہے ۔ یہ وہ دھند نہیں جس کی خوشی منائی جائے ۔ یہ تو سموگ ہے ۔ جو سموک یعنی دھوئیں اور دھند سے مل کر بنتاہے۔ یہ صحت کے لئے خاصا نقصان دہ ہے ۔اس صورت میں اگر آپ نے ماسک پہن رکھاہو تو آپ ا س سموگ کی کارستانیوں سے بچ سکتے ہیں۔ جس کو آپ دھند کہتے ہیں یہ سارا دن کا دھواں گرد وغبار او رمٹیاں ہیں جو فضا میں موجود ہوتی ہیں ۔پھر صبح کے وقت یہ دھند کی سی شکل میں نمودار ہوتی ہے۔ یہ سب ان شہروں میں زیادہ ہوتا ہے جہاں کارخانے ہوتے ہیں۔ کیونکہ ان کارخانوں میں گیسیں ہوتی ہیں جو دھو¶ں کی شکل میں ان کی چمنیوں سے نکلتی ہیں ۔ یہاں کوئلے جلتے ہیں جس کا دھواں ہوا میں مکس ہو جاتا ہے۔ یہاں گاڑیاں موٹر سائیکل چنگی چی اور رکشے سب دھواں چھوڑتے ہیں ۔ یہ دھواںاگر آنکھوںکو دکھائی نہیں دیتاتو اس کا مطلب یہ نہیں کہ یہ ختم ہو جاتاہے ۔ یہ ہوا میںموجودہوتا ہے ۔جب صبح ہوتی ہے تو یہ رات کی یخی کے کارن ہوا میں جم کر اپنی شکل کو واضح کر دیتا ہے ۔ہمارے ہاں یہ کچھ زیادہ ہے ۔اتنا زیادہ کہ خلائی سیاروں میں لگے کیمرے اس بات کی شکایت دنیا والوں کو کرتے ہیں۔مگر ہمارے بس میں اگر ہے تو بس یہ کہ ہم اس کا ماتم کریں مگر یہ ہمارے اختیار میں نہیںکہ ہم اس سموگ کو پیدا ہونے سے روکیں۔کیونکہ ہم نے کورونا جیسی بیماری میں ذمہ داری نہیں دکھلائی ۔ وہ تو قدرت نے مہربانی فرمائی کہ ہمیں کورونا کے شدید حملوں سے محفوظ رکھا ۔ وگرنہ تو ہم نے اپنی طرف سے بھرپور کوشش کی کہ ہم اس وائرس کا بھرپور اور شاندار شکار بن جائیں۔ ابھی تک ہمارا رویہ لا پروائی والا ہے ۔اب تو کورونا کو چھوڑ سموگ کا چرچا ہونے لگا ہے ۔کیونکہ سردیوں میں اس کے حملے ہماری زمین کو پانی پت کا میدان بنا دیتے ہیں۔ ماسک اگر پہن لیں تو سموگ کے تباہ کاریوں سے بچنے کے امکانات ہوتے ہیں۔کیونکہ اس سموگ میں دنیا جہان کا گند گریل گیس کی صورت میں موجود ہوتا ہے ۔ یہ گیس ہمارے پھیپھڑوں کو خراب کرتی ہے ۔جن کو سانس کی تکلیف ہے ان کو ان دنوںاس بیماری میں شدت محسوس ہوگی۔مگر کیا کریں جو ںجو ں دن گزرتے جا رہے ہیںتعلیم کی کمی کی وجہ سے ہمارے اوپر ہر طرح کی بیماریاں حملہ آور ہو رہی ہیں۔ باہر ملک میں عوام جا کررقم دے کر پولیو وغیرہ کے ٹیکے لگواتے ہیں ۔یہاں ہم کواپنے دروازے پر یہ سہولت مفت میسر ہے مگر ہم اس کو دشمنوں کی سازش سمجھ کر رد کردیتے ہیں ۔ ہمیں ہر نئی چیز اجنبی لگتی ہے ۔پہلے ہمارے ہاں ان بیماریوں کو کون جانتا تھا ۔مگر جب ان بیماریوں کے نقصانات سامنے آئے او رہمارے پیارے قبروں میںجا سوئے تو ہمیںاس طرف توجہ دینا پڑی ۔ ہمارا روناسال کے بارہ مہینوں کا رونا ہے ۔کبھی کس بات پر ہم آنسو¶ں سے نہاتے ہیں اور کبھی کس وجہ سے ٹسوے بہاتے ہیں ۔یہ مگر مچھ کے آنسو ہیں ۔ کیونکہ ہمارے اپنے کرتوتوںکی وجہ سے ایسا ہے ۔ہم تو زندگی میں سنجیدہ نہیں ہیں ۔سموگ کےلئے ا ب تک اردو میں کوئی اور لفظ ایجاد نہیںہوا۔ اگر ہو بھی جائے تو اس کو بولنے والے سموگ ہی بولیں گے۔ کیونکہ ترجمے والے نام مشکل ہوتے ہیں اور مشکل سے زبان اد ا ہوپاتے ہیں۔سموگ میں دیکھنے کی صلاحیت کم ہو جاتی ہے۔حتیٰ کہ سڑکوں پر گاڑیا ںبھی ایک دوسرے سے ٹکراجاتی ہیں ۔دھوئیں زیادہ ہو رہے ہیں۔ مٹیاں اچھل اچھل کر آنکھوں میں ایسے پڑ رہی ہیں جیسے سرمہ لگایا ہو اور بالوں میں ایسی الجھ رہی ہیں جیسے کسی نے بالوں میں مدتوں سے کنگھی نہ پھیری ہو۔ہمارے لئے سموگ کم کرنا ممکن نہیں۔پھر یہ ہمارے اپنے ہی ہاتھوں ہے ۔ہم اس دنیاکو اپنے معاشرے کو رجھ کر اور خوب جی بھر کے برباد کرنے پر تلے ہوئے ہیں۔