موسم میں ٹھنڈک ہوئی ہے ‘سو یاد آنے والی چیزیں یاد تو آئیں گی۔پچھلی سردی میں جو ساتھ تھے وہ نہیں۔جولمحات تھے نہ رہے ۔دور پھر اورزیادہ ماضی میں جائیں تو کیا کیا یاد آنے لگتا ہے۔بس یاد دلانے کےلئے اور یاد آنے کےلئے کوئی بہانہ درکارہوتا ہے۔مگر کچھ یادیں تو مستقل ہوتی ہیں۔ جو ہمہ وقت دل و دماغ کو اپنی گرفت میں تھامے رکھتی ہیں۔یہ کوئی کیفیت تو نہیں کوئی بخار یا ہنسنا ہنسانایا رونا جو کچھ دیر کےلئے ہو ۔یادیں تو آتی ہیں۔ درو دیوار چیر کر آتی ہیں ۔دروازے ڈھا کر پہنچ جاتی ہیں۔ کمرے کی کھڑکیاں بند کر لو اپنے آ پ کو مدتوں قید کر لو۔ذرا دروازہ کھلا نہ رہ جائے ذرا کھڑکی کا سوراخ اس کی درزیں کھلی مل گئیں تو کہیں یادیں سورج کی کرنوں کی طرح اندر آ نہ جائےں ۔ یاد تو موٹی موٹی دیواروں والے قلعہ کو مسمار کر کے اندر داخل ہو جاتی ہیں ۔ذہن کو جکڑ لیتی ہیں ۔اسے خود سے گرفتار کر کے اپنی ہی حوالات میں رکھتی ہیں۔دراصل ان باتوں سے آپ کی آنکھوں کو اس لئے زحمت دے رہاہوں کہ اندرونِ شہر گھومتے ہوئے سودا سلف لیتے قہوہ خانے پر نظر پڑی تو دل میں افسوس کی لہر اس لئے اٹھی کہ وہاں چائے نوش فرمانے والے اور قہوہ کی پیالی کی سرکیاں لینے والے موجود تو تھے ۔مگر ا ن میں اگر کوئی غیر حاضر تھا تو وہ میں خود تھا۔ اب ہمارے پاس اتنا وقت کہاں جو اس قسم کی عیاشی کر سکیں۔ وہ دوست یار جو ہمارے ساتھ ان چائے خانوں میںبیٹھتے تھے وہ بھی تو نہیں ۔ کوئی کہاں ہے اور کوئی کس شہر میں ۔کوئی مجبور اً گیا کوئی روٹی پانی کی تلاش میں شہر کے اندر رہ کر بھی ایک دوسرے سے ملنے کےلئے ناکارہ ہے ۔ہائے وہ لوگ پھر کب آئیں گے‘کب دوبارہ اکٹھے ہوں گے۔ کب ہمیں ویسی فرصت ملے گی ۔ مگر یہ سب کچھ ایک خواب ہے ۔ وہ خواب کہ جس کی تعبیر کےلئے کسی گیانی کے پاس جانا ہوگا۔گھر سے صبح دس بجے نکلتے تو قریب کے منڈہ بیری والے قہوہ خانے میں بیٹھ جاتے ۔وہاں سے دوست آ جاتے ۔ایک منڈلی جم جاتی۔ گپیں اڑتیں ۔ بلکہ اڑائی جاتیں۔ سخت سردیوں میں قہوہ خانے کے اندر گھاس پھونس تنکوں تیلوں کا فرش ہوتا اور ہم ہوتے تھے ۔گپ شپ کے دوران اچھا وقت گزر جاتا۔ مگر اب تو اس قسم کی وقت گزاری کےلئے بھی تو ٹائم چاہئے۔ اتنا وقت کہاں کہ یہ تکلف گوارا ہو۔اب تو پیدل چل کے قریب کے دکاندار کے پاس سودا سلف لینے کو بھی نہیں جایا جاتا۔ پھر فاصلوں نے تکلف کرناشروع کر دیا ہے ۔ قریب کی دکان پر دودھ تو ہے مگر جو خالص دودھ ہمیں چاہئے اس کے لئے ایک عدد بائیک بھی چاہئے۔ تاکہ دور سے جا کر یہ نایاب چیز لے کر آئیں ۔پھرایک سودا تو نہیں۔پھر یہ کہ بچہ ہو یا بچے وہ بھی ساتھ چمٹ جاتے ہیں۔ ایک کوگودمیں اٹھا لیااور دوسرے کی انگلی پکڑ لی ۔ کیونکہ اندر زنان خانے سے حکم جاری ہوا ہے کہ صبح سے یہ بچہ پارٹی گھرکے دروازے کے باہر کی آب و ہوا کےلئے جیسے ترس گئے ہیں۔ان کو بھی چکر دلا دو۔دودھ بھی لیں گے اور سرف بھی لینا پڑے گا۔ جو دودھ میں تو نہیں ڈالنا واشنگ مشین میں ڈالیں گے ۔ پورے پندرہ دنوں کے کپڑے میلے کپڑے جمع ہیں ۔آج گھرمیں کپڑے دھونے کا دن ہے ۔سو کھانے میں دیر بھی ہو سکتی ہے اور ممکن ہے کہ دوپہر کا کھانا شام کے قریب ملے ۔سو ہر چیز کےلئے پہلے سے ذہن کو تیار رکھنا ہے۔سوچا کہ چلو واک کرتے ہیں اور سودابھی لے آئیں گے۔ پیدل نکلے تو گلی محلے کے لوگ حیرانی سے دیکھنے لگے ہم خلاسے انسانوں میںآئے ہیں۔ سمجھ میں نہ آیا۔ مگر جلد سمجھ آ گئی ۔ اس لئے کہ ہم بھول چکے تھے کہ پیدل کیسے چلا جاتا ہے۔ قدموں پہ کیا چلتے کہ قدم لڑکھڑانے لگے ۔ اس سے پہلے کہ چکر آئے قریب کی تھلی کے پاس کھمبے کو تھام لیا ۔ سیڑھی پر بیٹھ گئے ۔ وجہ یہ ہے کہ بائیک کو اس طرح بے طرح استعمال کیا ہے کہ اب جو پیدل چلوں تو لوگ پوچھتے ہیں خیر تو ہے کہیں بائیک گم تو نہیں کر دی۔ سو واک کرنے کےلئے ایک دن بائیک کو ہینڈل سے پکڑ کر ساتھ پیدل لے کر گھومے ۔ تب بھی پبلک نے نہیں چھوڑا۔ جو ملا سوال داغ دیتا کیوں پنکچر ہے ۔میں نے کہانہیں نہیں ۔ بس ویسے ہی ۔ٹھیک تو بائیک ۔تھوڑا آگے ہوئے تو ایک اور واقفِ حال نے سوال کیا کیوں جی پٹرول ختم ہے ۔میںنے کہا ارے نہیں ۔ ایسی بات نہیں بس ذرا ۔ مگر اس طرح پیدل چل کر بائیک کو کان سے پکڑ کر ساتھ گھومنے کا مضبوط جواز ہمارے پاس نہیں تھا۔ سو دوبارہ سے بائیک پر سوار ہو کر کام کاج نپٹانے لگے ۔ پھر بچے بھی تو بائیک پر بیٹھنے کے عادی ہو چکے ہیں۔پیدل لے کر جا¶ تو نہیں جائیں گے۔ ان کو تو تیار جھولا مل گیاہے۔ گود میں اٹھا ¶ تو منہ بناتے ہیں ۔مگر بائیک پر خوش ہو تے ہیں۔ ایسے میں کسی کے پاس اتناوقت کہاں جو ڈیوٹی بھی نبھائے ۔گھر کے کام کاج بھی کرے ۔زوجہ محترمہ کے ساتھ گھریلو امور میں ان کا ہاتھ بھی بٹائے خواہ برتن ہی دھوناہوں یا کپڑے دھونے ہوں۔