حسب ضرورت امن

امریکہ کےلئے افغانستان کی اہمیت ختم ہو چکی ہے اور وہ اپنی ضرورت و سہولت کے تحت افغانستان سے چھٹکارا حاصل کرنا چاہتا ہے جس کےلئے افغانستان میں جیسا تیسا امن کا قیام ضروری ہے تو اس کے لئے بھی امریکہ کو پاکستان ہی کی معاونت حاصل کرنا پڑی جس نے اپنی بے لوث کوششوں سے بالآخر امریکہ اور افغان طالبان کے مابین امن مذاکرات کی راہ ہموار کی اور دوحا قطر‘ سعودی عرب اور اسلام آباد میں ہونے والے مذاکرات کے مختلف مراحل کے نتیجہ میں امن مذاکرات کی بیل منڈھے چڑھتی نظر آرہی ہے۔ امریکی صدر ٹرمپ نے افغانستان کا استعمال اپنی انتخابی مہم میں بھی کیا اور اِس کےلئے اُنہیں پاکستان کا شکرگزار ہونا چاہئے‘ جس نے یہ ممکن بنایا کہ وہ اپنا ایک انتخابی وعدہ پورا کر سکیں۔ افغان امن مذاکرات ہی کے نتیجہ میں امریکی صدارتی انتخاب سے قبل امریکی قوم کو افغانستان میں قیام امن اور وہاں سے امریکی فوجیوں کی واپسی کا تحفہ دینا چاہتے تھے تاہم اُن کی یہ خواہش باوجود کوشش بھی پوری نہیں ہو سکی البتہ اب صورتحال یہ ہے کہ افغانستان میں امن کی بحالی کے امکانات پہلے سے زیادہ روشن نظر آرہے ہیں جس کےلئے صرف امریکہ ہی نہیں بلکہ ایک دنیا پاکستان کے مثبت کردار کی معترف ہے تاہم افغانستان میں بدامنی کو پاکستان کی سلامتی کے لئے سازشوں کےلئے بروئے کار لانے والے سازشی عناصر گھناو¿نی سازشوں میں مصروف ہیں اور اس مقصد کے لئے وہ افغانستان‘ پاکستان اور خطے کے دیگر ممالک میں دہشت گردی کی وارداتیں کروا رہے ہیں۔ اسی بنیاد پر ایک امریکی جریدے نے بھارت کو عالمی نمبرون دہشت گرد قرار دیا ہے جبکہ گزشتہ ہفتے وزیراعظم عمران خان نے بھی اِس خدشہ کا اظہار کیا کہ بھارت پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لئے افغان سرزمین استعمال کر سکتا ہے۔ کابل یونیورسٹی میں ایرانی کتب میلے کے شرکا پر خودکش حملہ بھی اسی سازش کی کڑی ہو سکتا ہے جس میں پچیس افراد بیشتر طلبہ اور اساتذہ شہید ہوئے جبکہ طالبان نے اس خودکش حملے سے اپنی لاتعلقی ظاہر کی ہے! اس تناظر میں افغان امن عمل کو نتیجہ خیز بنانے کےلئے بھارت سے بہرصورت ہوشیار رہنے کی ضرورت ہے۔افغان جنگ میں امریکی فرنٹ لائن اتحادی کا کردار ادا کرتے ہوئے پاکستان نے ہی سب سے زیادہ قربانیاں دیں اور جانی و مالی (معاشی و اقتصادی) نقصانات اٹھائے۔ اس لئے افغانستان میں مستقل امن کی بحالی پاکستان کی اپنی ضرورت بھی ہے جبکہ پاکستان چین مشترکہ اقتصادی راہداری (سی پیک) منصوبے کو مکمل فعال (آپریشنل) کرنے کے لئے بھی خطے میں پرامن فضا اور سازگار ماحول کا استوار ہونا ضروری ہے اور اِس کا دارومدار بہرصورت افغانستان میں امن کی بحالی پر ہی ہے۔ بیشک امریکہ اور اس کے نیٹو اتحادیوں نے دہشت گردی کے خاتمہ کے نام پر افغان دھرتی پر شروع کی گئی جنگ میں مسلسل بارہ سال جدوجہد کی اور نیٹو ممالک کے تین لاکھ کے قریب فوجیوں نے بھی ہر قسم کے ہلکے اور بھاری ہتھیاروں خطرناک ترین جنگی سازوسامان سے لیس ہو کر افغان سرزمین پر چڑھائی کی جہاں غیور افغانیوں نے کسی غیرملکی باشندے کے پاو¿ں جمنے اور ٹکنے نہیں دیئے اور افغانستان کو زیر کرنے کی نیت سے آنے والی ہر غیرملکی فوج کو ہزیمتیں اٹھاتے ہوئے پسپائی اختیار کرنا پڑی۔ ایسی پسپائی نیٹو فورسز کے مقدر میں بھی لکھی ہوئی تھی جنہوں نے افغان دھرتی کو کیمیائی ہتھیاروں اور کارپٹ بمباری سے عملاً ادھیڑ کر دیا اور انسانی خون میں نہلا کر تورابورا بنایا اور اس جنگ میں مدرسوں‘ تعلیمی اداروں‘ ہسپتالوں اور شہری آبادیوں پر بھی فضائی حملوں سے گریز نہ کیا چنانچہ نیٹو کو سال 2012ءمیں مایوس و نامراد ہو کر واپسی کا سفر اختیار کرنے پر مجبور ہونا پڑا جن کی سال دوہزارپندرہ تک مرحلہ وار واپسی کا عمل مکمل ہوا۔امریکہ نے افغانستان اور اِس خطے سے وابستہ اپنے مفادات کےلئے اپنی فوجوں کا ایک حصہ افغانستان میں موجود رکھا ہوا ہے جس کے باعث افغانیوں کی جانب سے ان کی مزاحمت‘ گوریلا جنگ اور دہشت گرد کاروائیوں کا سلسلہ جاری ہے چنانچہ اب تک افغانستان میں امن کی بحالی ایک خواب بنی ہوئی ہے۔ افغانستان میں دہشت گردی کے ذریعے پاکستان کو غیرمستحکم کرنے‘ یہاں لسانی اور فرقہ ورانہ تعصبات ابھارنے اور دہشت گردی پھیلانے کی سازشیں عالمی امن کے لئے بھی خطرہ ہیں۔ امریکہ کی سیاسی و عسکری قیادت کو اپنے مفادات کی عینک لگا کر افغانستان کو نہیں دیکھنا چاہئے بلکہ افغان جنگ میں فرنٹ لائن اتحادی کی حیثیت سے جانی اور مالی نقصانات اٹھانے والے پاکستان کے کردار کی بنیاد پر اس کی سلامتی مضبوط بنانے پر بھی توجہ دینی چاہئے۔ عجیب منطق ہے کہ امریکہ بھارت کو اپنا فطری اتحادی قرار دے کر اُس کے ساتھ جوہری دفاعی تعاون کے متعدد معاہدے کئے ہوئے ہے جبکہ پاکستان کی توانائی و دفاعی کی ضروریات میں امریکی تعاون مشروط ہے۔