رسائل وجرائد کی صحافت

پرنٹ میڈیا کی مسلمہ شاخوں میں روزناموں کو کلیدی اہمیت حاصل رہی ہے لیکن روزنامہ صحافت کی موجودہ شکل میں ترقی سے قبل ہمارے ہاں جو صحافت رائج اور مقبول رہی ہے اس کا تعلق ہفت روزہ،پندرہ روزہ اور ماہانہ صحافت سے رہا ہے۔اگر اس تناظر میں دیکھا جائے تو اس حوالے سے بر صغیر پاک وہند میں مسلمانوں کے ہاں صحافت کے یہی درجے معتبر اور مشہور رہے ہیں اور ان کا مختلف حوالوں سے اہم کردار رہا ہے۔ چاہے وہ غیروں کی غلامی سے نکلنے اور حریت کا جذبہ بیدار کرنا ہو یا پھر معاشرتی رویوں میں اصلاح کا پہلو ہو۔ ہر حوالے سے مختلف ادوار میں ان جرائد نے اپنا کردار اس خوبی سے ادا کیا کہ آج تک ان کا تذکرہ باقی ہے ۔بیسویں صدی عیسوی کے پہلے نصف میں مولانا ابو لکلام آزاد کا ہفت روزہ الہلال اورالبلاغ،مولانا محمد علی جوہر کاکامریڈ اور ہمدرد،مولانا ظفر علی خان کا زمینداراور مولانا سید ابوالاعلیٰ مودودی کا ترجمان القرآن اس کی نمایاں مثالیں ہیں۔ان اخبارات و جرائد نے جہاںمسلمانوں میں ملی بیداری اور آگے بڑھنے کے جذبے کو ابھارنے میں اہم کردار ادا کیا، وہاںمعاشرے میں موجود برائیوں کی نشان دہی اور اصلاح کے عمل کو بھی بخوبی انجام دیا۔تاہم اس کے ساتھ ساتھ برصغیر پاک وہند میں مسلم صحافت پر گفتگوکرتے ہوئے ہمیں اس تلخ حقیقت کو نہیں بھولنا چاہئے کہ صحافت کو بام عروج پرپہنچانے کے باوجود متذکرہ نابغہ روزگار شخصیات کی دنیا سے رخصتی کے ساتھ ہی ان کی صحافت اور ان کے جاری کردہ رسائل وجرائد بھی وقت کی دھند میں لپٹتے گئے اور ان میں سے اکثر ماضی کاحصہ بن چکے ہیں اور ان کا فعال وجود نہیں رہا۔ البتہ ان رسائل میں ایک رسالہ ایسابھی ہے جو اپنی اشاعت کی سنچری مکمل کرنے سے محض بارہ سال کی مسافت پر ہے ۔یہ ماہانہ رسالہ ترجمان القرآن لاہور ہے جسکاآغاز جماعت اسلامی کے بانی اور مفکر اسلام مولانا سید ابو الاعلی مودودی نے آج سے 88سال قبل 1932 میں حیدر آباد دکن سے کیاتھا۔ واضح رہے کہ ترجمان القرآن پچھلی آٹھ دہائیوں سے علمی و عقلی بنیادوں پر اسلام کے حقیقی اور آفاقی تصور کو اجاگرکررہا ہے،اس کی ماہوار اشاعتوں میں زندگی کے مسائل کو عصر جدید کے تقاضوں سے ہم آہنگ کر کے ا سلام کو ایک جامع نظام زندگی کے طور پر پیش کیا جاتا ہے ۔سید مودودی کے بعد عبدالحمید صدیقی اورمولانا نعیم صدیقی نے اسے آگے بڑھانے میں اہم کردار ادا کیا۔ 90کے عشرے میں خرم جاہ مراد نے اس کی ادارت سنبھالی تاہم 1997سے بین الاقوامی شہرت یافتہ ماہر اقتصادیات پروفیسر خورشید احمد اس کے مدیر ہیں۔یہ رسالہ 2 193 میں اپنی اشاعت کے آغاز سے جون 1947تک مسلسل چھپتا رہا لیکن جون 47سے مئی 1948 تک اس کی اشاعت میں تعطل پیدا ہو گیا تھاجس کی وجہ تقسیم برصغیر تھی۔ قیام پاکستان کے بعد اکتوبر 1948تا جولائی 1949تک ایک مرتبہ پھر اشاعت میں رکاوٹ پیدا ہوئی۔ تاہم اس کے بعد سے یہ مسلسل باقاعدگی سے شائع ہو رہا ہے۔ ترجمان میں پیغام قرآنی، ارشادات سیرت نبوی صلی اللہ علیہ وآلہ وسلم‘دل‘ روح اور اخلاق کے تزکیے کا سامان،ایمان، عبادت، اخلاق، آداب معیشت، سیاست، معاشرت،دور حاضر میں اسلامی زندگی کی تشکیل،فقہ و اجتہاد کے مباحث‘مسلم دنیا‘ سیاست عالم‘پاکستان‘ امت کا مشن اور دعوت،عالمی اسلامی تحریکیں،رسائل و مسائل،کتابوں پر تبصرے اورقارئین کی دلچسپی سے متعلق دیگرکئی موضوعات شامل ہوتے ہیں ۔ موجودہ دور میں ترجمان القرآن جیسے جدید علمی رسالے کی اشاعت اور اس کاکسی گھر میں پہنچنا گویا خاموشی کےساتھ نیکی کاکوئی بیج بونے کے مترادف ہے ۔نیکی کے پھیلاﺅ کااس سے بہترین اور آسان نسخہ اور کوئی نہیں ہوسکتاکہ آپ کچھ لوگوں کے لئے دین کی جدوجہد کی طرف پلٹنے کا سبب بن کر ان کے اعمال کے اجر میں برابر کے حصہ دار بن جائیں جو موجودہ حالات کا تقاضا بھی ہے اور معاشرتی ذمہ داری بھی۔