فرانسیسی صدر ایمانوئیل میکرون رسول کریم صلی اللّٰہ علیہ وسلم کے خاکے چھاپنے کو آزادی رائے اور سیکولرازم کا تقاضا کہہ کر جاری رکھنے پر مصر ہے اور اسے دنیا کے ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کے جذبات و احساسات کی کوئی پروا نہیں۔ سوال یہ ہے کہ کیا فرانس سمیت مغربی ممالک میں آزادی رائے پر کوئی پابندیاں موجود ہیں اور کیا آزادی کو محدود کیا جاسکتا ہے؟انسانی حقوق کے عالمی اعلامیہ کی شق انیس، سول اور سیاسی حقوق پر بین الاقوامی معاہدے کی شق انیس اور انسانی حقوق کے یورپی کنونشن کی شق دس سمیت متعدد بین الاقوامی اعلامیوں کے مطابق آزادی رائے کا تصور لا محدود نہیں ہے۔سول اور سیاسی حقوق پر بین الاقوامی قانون کی شق انیس کے مطابق آزادی رائے دوسروں کے حقوق یا ساکھ کو نقصان پہنچا رہی ہو یا قومی سلامتی، امن عامہ، صحت اور اخلاقیات کے لیے نقصان دہ ثابت ہو رہی ہو تو اسے محدود کیا جاسکتا ہے۔فرانسیسی حکومت خاکے چھاپنے کو آزادی اظہار قرار دیتی ہے مگر جب ترک صدر نے فرانسیسی صدر کو اپنا دماغی معائنہ کروانے کا کہا تو اس پر فرانس نے ترکی سے اپنا سفیر واپس بلالیا اور کہا کہ ایسی توہین برداشت نہیں کی جائے گی۔ یعنی فرانس کی نظر میں دنیا کے ایک ارب سے زیادہ مسلمانوں کے جذبات مجروح ہونا کوئی برائی نہیں مگر فرانس کے صدر پر تنقید غلط ہے۔ جو چاہے آپ کا حسن کرشمہ ساز کرے۔مطلق آزادی اظہار رائے کے تصور کی نفی کی سب سے نمایاں مثال یورپ و امریکہ میں ہولوکاسٹ اور انٹی سیمیٹیزم کا قانون ہے جس کے تحت ہٹلر کے ہاتھوں 60 لاکھ یہودیوں کے قتل عام کو جھٹلانا یا اسے مبالغہ آمیز قرار دینا جرم ہے۔ 2006 میں آسٹریا کے عیسائی محقق ڈیوڈ ارونگ کو ہولوکاسٹ کو مبالغہ آمیز کہنے پر تین سال قید کی سزا ملی۔یورپی یونین کے انسانی حقوق کے کنونشن، جو انیس سو پچاس میں منظور کیا گیا، کے شق دس میں کسی سرکاری طاقت کی مداخلت سے قطع نظر رائے رکھنے اور معلومات اور نظریات حاصل کرنے اور پھیلانے کی آزادی دی گئی ہے۔ تاہم اس شق کے دوسرے حصے میں کہاگیا ہے کہ یہ آزادی کسی جمہوری معاشرے کے قانون کے دائرے کے اندر رہتے ہوئے رسوم، حالات اور ضوابط کے ماتحت ہے اور اس کی آڑ میں کسی کے جذبات مجروح نہیں کیے جا سکتے۔ کنونشن میں کہاگیا ہے کہ چونکہ ان آزادیوں کے ساتھ کچھ فرائض اور ذمہ داریاں بھی ہیں تو ان پر عمل درآمد ایسے قواعد، شرائط، پابندیوں اور سزاو¿ں کے تحت ہوگا جنہیں قانون مقرر کرے اور جو ایک جمہوری معاشرے میں قومی سلامتی، علاقائی سالمیت یا امن عامہ کے مفاد میں، یا بدنظمی اور جرم کی روک تھام، یا صحت عامہ، اخلاق، دوسروں کی شہرت اور حقوق کی حفاظت، اور عدلیہ کی طاقت اور غیر جانبداری برقرار رکھنے کےلئے ضروری ہیں۔فرانس میں نفرت انگیز گفتگو کے قوانین دیوانی اور فوجداری قانون دونوں میں آتے ہیں۔ یہ قوانین افراد اور گروہوں کو کسی قومیت، قوم، نسل، مذہب، جنس یا جنسی شناخت سے تعلق رکھنے یا نہ رکھنے اور یا جسمانی معذوری رکھنے کی وجہ سے بدنام یا بے عزت کرنے سے روکتے ہیں اور ان کے خلاف نفرت پیداکرنے یا انہیں نقصان پہنچانے کےلئے کسی مواد کی تشہیر سے منع کرتے ہیں۔ انیس سو بہتر کا پلیون ایکٹ نفرت، استحصال، بدنامی اور نسلی تضحیک سے منع کرتا ہے۔ انیس سو نوے کا گیساٹ ایکٹ ہر قسم کے نسلی، اینٹی سیمیٹزم سرگرمیوں بشمول ہولوکاسٹ کے انکار سے روکتا ہے۔فرانس میں وہی ریڈیو اور ٹیلی ویژن چینل کام کرسکتے ہیں جن کو ایک آزاد انتظامی اتھارٹی سے لائسنس جاری ہوا ہو۔ اس اتھارٹی نے حال ہی میں انٹی سیمٹیک مواد کی وجہ سے چند غیرملکی چینلز کی اجازت منسوخ کی تھی۔ پچھلے سال جولائی میں فرانس کی قومی اسمبلی نے آن لائن نفرت انگیز بیان کے قوانین کو مضبوط کیا ہے اور کمپنی اب چوبیس گھنٹوں میں مواد کو ہٹانے کی پابند ہے۔یورپی کنونشن میں شامل ہر ملک کنونشن کے مطابق اپنے قوانین اور پالیسیاں تبدیل کرنے کا پابند ہے۔ اس قانون کے تحت انسانی حقوق کی یورپی عدالت قائم کی گئی ہے جس میں کوئی بھی فرد جو محسوس کرے کہ اس کنونشن کے تحت اسے جو انسانی حقوق حاصل ہیں ان کی کنونشن میں شامل کسی ریاست نے خلاف ورزی کی ہے تو وہ اس عدالت میں مقدمہ دائر کرسکتا ہے۔ فرانس بھی اس کنونشن پر دستخط کر چکا ہے اور یورپی عدالت برائے انسانی حقوق کے دائرہ عمل کو مانتا ہے۔ فرانس میں تحریری مواد چھاپنے سے پہلے کسی سنسرشپ کا تصور نہیں مگر کسی بھی قانون کی خلاف ورزی پر مقدمہ عدالت میں دائر کرنا اور ثابت کرنا ہوتا ہے۔ لیکن اگر اس قانون کے تحت عدالت میں فرانس کے صدر یا حکومت کے خلاف مقدمہ دائر کیا جائے تو امید رکھی جاسکتی ہے کہ یہ سلسلہ سرکاری سطح پر رک جائے گا۔ ماضی میںایک عورت کو فرانسیسی عدالت نے سزا سنائی۔ اس عورت نے مندرجہ بالا قانون کے تحت فرانس میں واقع یورپی یونین کی عدالت برائے انسانی حقوق میں اپیل کی۔ عدالت نے فیصلہ دیا کہ "کہ پیغمبرِ اسلام کی توہین آزادیِ اظہار کی جائز حدوں سے تجاوز کرتی ہے۔ اس کی وجہ سے تعصب کو ہوا مل سکتی ہے اور اس سے مذہبی امن خطرے میں پڑ سکتا ہے۔"