ہاتھ میں ریمورٹ لے کر اس پر انگلیوں کوحرکت دیں ہر جگہ کوئی نہ کوئی ڈرامہ آ رہاہوتا ہے ۔ ٹی وی پر تفریح کےلئے کسی نہ کسی ڈرامہ کو دیکھنا پڑتا ہے ۔خواہ جھوٹا ہو یا سچا۔ اکثر ڈرامے تو ظاہر ہے کہ جھوٹے ہوتے ہیں ۔ مگر ایسے بھی تو دروغ نہیں ہوتے کہ ایسے واقعات کہیں ہو نہ رہے ہوں یا ہو نہ چکے ہوں۔ ہمارے ہاں تھوڑے ڈرامے ہیں ۔جو اس وقت چھوٹی سکرین پر چل رہے ہیں۔ایک پہ ایک جھوٹ ہے اور خود اداکاری کی آگے نقل کرنے والے اداکار ہیںجن کو ڈرامے لکھے مل جاتے ہیں۔ان کو کہا جاتا ہے کہ آ پ نے اپنی باری پر کیمرے کے سامنے یہ مکالمے بولنے ہیں۔لیکن اگر ڈراموں سے ہٹ کر آپ خبروں کا چینل لگا لیں ۔بلکہ کوئی خبروں کا چینل بھی لگا لیں۔آپ کو یکسانیت کی ایک بھرمار ملے گی۔ خبروںکا ایک طومار ملے گا۔ مگر ان میں ایک بات ضرور یکساں ہے ۔ یہ کہ ان میں آج کل کوئی اچھی خبر سننے کو کم ہی ملے گی۔ اس کی بھی تو ایک وجہ ہے۔یہ کہ ہمارا معاشرہ ہی اس رفتار پر رواں ہے کہ جو ہمارے آس پاس ہو رہاہے وہی تو خبروں میں پیش کیا جاتا ہے۔کچھ کو جیسا ہے ویسا پیش کر دیتے ہیں۔پھر کچھ میں ملاوٹ کر کے آگے کر دیتے ہیں۔ ملاوٹ کیوں نہ کریں گے۔ ملاوٹ کس دور میں نہیںہوئی ۔ ہردور میں ایسا ہواہے ۔اپنے مقصد کو پورا کرنے کے لئے موم کی ناک ہے جدھر موڑ دیں۔ پھر ناک کی سیدھ میں وہاں اس طرف دیکھنا شروع کر دیں۔ٹی وی میں تو بوریت دور کرنے کے اور بہت سے چینل ہیں ۔ جی نہ چاہے تو کیا ضرورت ہے کہ حالاتِ حاضرہ سے باخبر ہوں۔مگر کیا کریں کہ پورا دن بھی اگر خبریں جان کر نہ دیکھیں تو کسی گھڑی جی چاہے گا کہ ذرا خبریں تو لگا کر دیکھیں کہ اس وقت کیا ہورہاہے ۔ٹرمپ یا بائیڈن کون جیتا ہے ۔ہر ملک ہر شہر کی خبروں کی یلغار ہے اور چینل ہیں یہ آنکھیں ہیں جی چاہے نہ چاہے سانحات کو دیکھنا پڑتا ہے ۔مگر افسوس کہ ان دنوں کوئی اچھی خبر نہیں۔مہنگائی ہے اور چو ر سپاہی کا کھیل جو کھیلاجا رہاہے اس کے ڈرامے بھی تو خبروں کے چینل پر آ گئے ہیں۔جس جانب منہ موڑو ایک طرح کی خبریں ہیں۔بس بوریت اوریکسانیت کی آگ میں جلنا ہے ۔ٹی وی ہو یا ریڈیو خبروں کا مزا نہیں رہا۔ گروپ کے گروپ ہیں۔جھنڈ کے جھنڈ ہیں۔ دھڑے بازی ہے غول کے غول بس ایک ہی جانب بھیڑ کی چال سے جاتے ہوئے ایک ہی گڑھے میں گرتے چلے جاتے ہیں۔ اپنا دماغ تو ان بھیڑوں کے سرو ں میں ہے ہی نہیں۔ سر ہے دماغ نہیں اور دماغ ہے تو سوچ نہیں کہ وطن کی لاج کیسے رکھنا ہے اور قومی مفادات کس چیز کا نام ہے یا قومی سلامتی کے تقاضے کیا ہیں بلکہ بھیڑوں کو چھوڑیں بھڑیں ہیں جو آدمیوں کو کاٹنے کو دوڑ رہی ہیں۔ان کے ڈنک سے ایک دوسرے کامنہ سوجا ہواہے ۔کیونکہ یہ ان بھڑوںکے چھتے کو گرانا چاہتے ہیں۔ٹی وی آج کل زوروں پر ہے ۔اس کی نشرو اشاعت اس کا اثر اس کی رغبت دلو ںمیں گھر کر رہی ہے۔اس کے سوا کوئی او رچارہ بھی تو نہیں ۔ آدمی دیکھے تو دیکھے کیا۔ ظاہر ہے کہ جو چینل مہیا ہیں وہی دیکھیں گے ۔مگر ان پر تو آج کل ایک دوسرے کی ٹانگوں کے کھینچے جانے کے مناظر ہیں۔کوئی خود پھسل رہاہے کسی کو گرایا جا رہاہے۔کوئی بیانیہ دے کر مکر رہاہے کوئی بیان دے کر واپس لے رہا ہے کوئی اپنے کئے پر نادم نہیں ۔کوئی کہہ رہاہے مجھے ستایا تو اورشرارت کروں گا۔ کسی کو پشیمانی نہیں کسی کو ملامت نہیں۔ ہر کوئی اپنی بات پر اڑا ہوا ہیں اور دوسرے کی بات کو سچ ماننے پر تیار نہیں یعنی سب اپنی ہانک رہے ہیں۔ارض ِ وطن کی تو پروا نہیں ۔ملک جس دوراہے پر آج ہے شاید ہی پہلے کبھی نہ تھا ۔حالانکہ ہر دور میںکہا جاتا رہا کہ ارضِ وطن پر کڑاوقت ہے مگر سخت حالات گزر بھی جاتے ہیں۔ کہیں سے امداد وصول ہوجاتی ہے ۔کہیں نہ کہیں سے بجٹ کا خسارہ پورا کروا لیا جاتاہے۔ پھر آئندہ کے لئے وہی غیر محتاط رویہ پیش کرتے ہیں۔ بس سونے کی کان ہے اور لپکتے ہوئے ہاتھ ہیں۔پھر سونا لے کرنیچے بھاگنے کے لئے زینوں کی جانب کھسکتے ہوئے پا¶ں ہیں اور بے خبری ہے۔ اطلاعات کے ہوتے سوتے ایک بے خبری کا عالم ہے کہ جیسے کسی کو کچھ پتا نہیں ۔حالانکہ سب کو سب پتا ہے ۔ وہ غوث متھراوی کا شعر ان دنوں بہت یاد آتا ہے ” خبر اخبار میں آئے نہ آئے۔ خبر سے بے خبر کوئی نہیںہے۔“