سیاسی جماعتوں کو کارکنوں کی ضرورت ’عام انتخابات‘ کے موقع پر پڑتی ہے لیکن اِس مرتبہ حزب اقتدار اور حزب اختلاف سے تعلق رکھنے والوں کو اپنے اپنے کارکنوں کی قبل از انتخابات ضرورت آ پڑی ہے اور یہی وجہ ہے کہ ٹائیگر فورس بمقابلہ شیر جوان فورس کو متحرک کرتے ہوئے میدان میں اُتار دیا گیا ہے۔ بنیادی سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کی نوجوان نسل کا مستقبل یہی ہے کہ اُن کی سیاسی وابستگیوں کا امتحان لیا جائے؟ ضمنی سوال یہ ہے کہ کیا سیاسی جماعتیں زیادہ نہیں تو اپنے اپنے کارکنوں کے حقوق کی ادائیگی کرتی ہیں جو اُنہیں یوں طلب کیا جاتا ہے؟اقوام متحدہ کے ادارے یونائیٹڈ نیشنز ڈویلپمنٹ پروگرام (یو این ڈی پی) کے مرتب کردہ اعدادوشمار کے مطابق پاکستان کی زیادہ تر آبادی نوجوانوں پر مشتمل ہے اور یہی وہ طبقہ ہے جو کسی بھی ملک میں تبدیلی لانے کا ذریعہ بن سکتا ہے۔ پاکستانی نوجوانوں کا سیاست میں کردار کیا ہے‘ کیا ہونا چاہئے اور نوجوانوں کے طرز سیاست میں کیا فرق ہے اِس متعلق امور پر بھی غور ہونا چاہئے۔ سیاسی سرگرمیوں یا سیاسی اہداف کو حاصل کرنے کےلئے نوجوانوں کا استعمال اور انہیں ایک خاص عمر تک سیاست سے الگ رکھنا اِس لئے بھی ضروری ہے تاکہ وہ اپنی تعلیم و درسی تجربے کو مکمل کر سکیں۔ پاکستان کی سیاست کے بے شمار سیاسی رہنما جن میں جاوید ہاشمی‘ جہانگیر بدر‘ خواجہ سعد رفیق‘ لیاقت بلوچ اور دیگر نے زمانہ¿ طالب علمی ہی میں سیاست شروع کر دی تھی تاہم اب جو سیاسی جماعتیں پاکستان میں موجود ہیں وہ نظریاتی نہیں بلکہ وقتی ضرورت کے لئے کارکنوں بالخصوص نوجوانوں سے کام لیتی ہیں کیونکہ اب سیاست نظریات کے نہیں بلکہ شخصیات اور شخصی مفادات کے گرد گھومتی ہے اور یہی وجہ ہے کہ نوجوان بہت جلد حقیقت کو بھانپ لیتے ہیں اور سیاست میں حصہ لینے کے بعد زیادہ دیر تک سیاسی رہنا پسند نہیں کرتے۔ تحریک انصاف نے ”نئے پاکستان“ کا نعرہ دیا لیکن اِسے نظریئے میں تبدیل نہیں کر سکی۔ نوجوان جو پہلے ہی سنہرے خواب رکھتے ہیں اُنہیں مزید خواب دکھائے گئے۔ یہی خدمت دیگر جماعتیں بھی کر رہی ہیں کہ جیسا کہ نواز لیگ نے نوجوانوں کو کوئی نظریہ نہیں دیا بلکہ ایک ایسا نعرہ دیا ہے جو صرف اور صرف شریف خاندان کو دوبارہ اقتدار میں لانے کا ہدف رکھتا ہے۔ ٹائیگر فورس ہو یا شیر جوان فورس اِن سے طویل المیعاد سیاسی فائدہ نہیں ہوگا بلکہ یہ وقتی تحریکیں ہیں اور وقت کے ساتھ حزب اقتدار و اختلاف میں ہونے والی سیاسی لڑائی کے سرد ہونے کے ساتھ تحلیل ہو جائیں گی اور مستقبل قریب میں کسی کو ٹائیگر فورس یا شیرجوان فورس کے نام بھی یاد نہیں رہیں گے! گہرائی سے دیکھا جائے تو یہ حقیقت سامنے آتی ہے کہ پورا پاکستان ٹکڑوں میں بٹا ہوا ہے اور ہر شخص سیاسی ہو یا غیرسیاسی ’بے سمت مسافت‘ میں آگے بڑھ رہا ہے۔ جامعات اور کالجوں سمیت نچلی سطع پر سیاسی شعور اور مسائل کا صحیح اندازہ لگانا ممکن نہیںاور ایسی آگاہی بھی موجود نہیں جس کے پاکستان کے مستقبل پر دیرپا اثرات مرتب ہوں۔ ایک وقت تھا جب طلبہ تنظیمیں (تعلیمی اداروں کی طلبہ یونینز) قومی رہنماو¿ں (قیادت) کا اِنتخاب کرتے تھے اور نوجوانوں کی گرفت سیاست اور سیاسی فیصلوں میں مضبوط ہوتی تھی لیکن پھر سوچے سمجھے منصوبے کے تحت آمرانہ دور میں نوجوانوں اور طلبہ تنظیموں کی سیاست کو بدنام کر کے اِن پر پابندی عائد کی دی گئی جسے سیاسی جماعتوں نے قبول کر لیا اور باوجود اختیار رکھنے کے بھی اِسے جاری رکھا۔ اصولاً ایسے تمام نوجوانوں کو کہ جن کی عمریں اٹھارہ سال (ووٹ دینے کی قانونی عمر) سے کم ہو‘ اُنہیں کسی بھی سیاسی جماعت کی فورس میں شامل نہیں ہونا چاہئے۔ ٹائیگر ہوں یا شیر اِن فورسز کا مقصد ایک دوسرے کا مقابلہ ہے اور یہی وجہ ہے کہ حسب ضرورت اِن سے استفادے کے بعد ایسی تمام فورسز اور تنظیمیں ناکام ثابت ہوں گی لیکن خطرناک بات یہ ہے کہ اِن فورسز کا حصہ بننے والے نوجوان کارکنوں کی اکثریت کا سیاسی عمل پر سے اعتماد اُٹھ جائے گا اور وہ بھی سیاسی قائدین کی طرح صرف اور صرف اپنے مفادات کی نظر سے ہر معاملے کو دیکھیں گے جبکہ پاکستان کی ضرورت ایک ایسے عوامی انقلاب کی ہے جس میں نوجوان نظریاتی اور کلیدی کردار ادا کریں اور اِس مقصد کے لئے پہلی سیڑھی سیاسی جماعتوں کا اپنی ذات میں جمہوری اور منظم ہونا ہے۔ ملک کی سبھی بڑی اور قوم پرست علاقائی جماعتیں موروثی سیاست کے اصول پر کام کر رہی ہیں اور ایک ایسے دور میں جبکہ نوجوانوں کے ہاتھوں میں ڈیجیٹل آلات ہیں اور اپنی رائے کا اظہار سوشل میڈیا کے ذریعے کرنے جیسی جرا¿ت و صلاحیت سے لیس ہیں تو سیاسی جماعتوں کو تعلیم کے معیار‘ فروغ‘ ہنرمندی اور بیروزگاری جیسے مسائل پر توجہ دینی چاہئے۔