نیا زمانہ نئے صبح و شام

ہمارے ہاں ذو ق وشوق ہے مگر کتابیں نہیں ‘ معلومات کی پرانی کتابوں میں معلومات بھی پرانی ہی ہوں گی‘دو ہزار بیس کی معلومات آپ کو نیٹ پر ہی ملیں گی‘ پھر کتابیں اتنی مہنگی ہیں کہ جس کی کوئی انتہا نہیں ‘کوئی کتاب خریدے یا گھر کےلئے روٹی پانی کا بندوبست کرے اور ہانڈی پکائے ‘ اس چولھے پر کہ جس میں گیس نہیں ‘ سو وہ پہلے سلینڈر میں گیس بھرائے گا اور پھر ہانڈی دھری جائے گی‘ ایسے میں اسکے پاس کہ بجلی کے بل کو جمع کروائے خاک روپے بچیں گے جو وہ جیب سے نکال کر کتاب خریدنے کےلئے کتابوں کے بڑے بازار میں جائے یا کریم پورہ کی پرانی کتابوں کی گلی میں جائے‘ایسے میں وہ کیوں نہ سو روپے والے نیٹ کے پیکیج کے ذریعے جیب سے نکالے گئے موبائل کے واٹس ایپ پر وہی کتاب کسی دوست سے پی ڈی ایف فارم میں منگوالے ۔کتابوں کا ذوق وشوق وہی ہے جو پہلے تھا مگر ٹرینڈ بدل گیا ہے‘ہر نیا دور ساتھ اپنے تقاضے بھی لاتا ہے ‘ اگر آج لائبریریاں نہیں تو خاص بات نہیں‘ لائبریریوں میں کون سی نئی کتابیں پڑی ہیں ۔ پرانی کتابیں شیلف میں رکھی ہوتی ہے‘ کوئی پالیسی ہوگی ‘ایسے میں کوئی ہمارے جیساان لائبریریوں سے بد دل ہو کر زندگی بھر یہاں کا رخ نہ کرے تو ایسا ہی ہوگا‘ وہی سن صفر کے زمانے کے انسائیکلو پیڈیا ہیں‘جن کو پڑھنے سے ہزار گنابہتر ہے کہ گوگل ‘یوٹیوب اور فیس بک سے تازہ ترین معلومات لیں‘یو ٹیوب کھولیں کسی مسئلے کسی عنوان پر آپ کو انبار ملے گا‘ لیکچر ہوں گے ‘لکھی ہوئی چیزیں ملیں گی‘ ایسے میں کوئی پاگل ہے کہ کریم پورہ بازار پشاور کی پرانی دکانوں کے چکر کاٹے ‘وہاں سے کتابیں خریدے‘ کیوںنہ موبائل آن کرے اور ہر قسم کی تبدیل شدہ واقفیت پل جھل میں حاصل کرے ‘کتاب اٹھائے گا ڈھونڈے گا اس پر تو کافی وقت لگے گا‘کتاب پڑھنے کےلئے کسی کے پاس وقت نہیں ‘وہی جانکاری جو وہ کتاب کومیں ہاتھ میں لےکر زحمت سے حاصل کرے آن کے آن میں نیٹ سے مل جائیں گی‘ نئی قسم کی لائبریریوں میں ایک کتاب بھی نہیںکمپیوٹر پڑے ہیں‘ان میںکتابیں اپ لوڈ ہیں یا ڈا¶ن لوڈ ہیں کھولو اور پڑھنا شروع کردو ۔ جی چاہے پیسے دےکر وہ کتاب پرنٹر پر سے ڈا¶ن لوڈ کرو یا ہزار پانچ سو کے میموری کارڈ میں کاپی کرلو اگر میموری کارڈ بھی نہ ہو تو اپنے ای میل ایڈریس پربھیج دو ‘ گھر آکر وہی کتاب آرام سے دیکھ لو پرنٹ کر لوبلکہ آج کل تو لوگ ایم فل بھی گوگل کو دیکھ کر یوٹیوب کے لیکچر سنتے ہوئے کرتے پھر رہے ہیں‘ اتنے ایم فل پیدا ہو رہے ہیں کہ اس ڈگری کی وقعت بھی مانند پڑ چکی ہے ‘ نیٹ پر مواد نئے سے نیا ہے اور اردو میں ہے تو بھی دنیا بھر سے اپ لوڈ ہو رہاہے‘مگر نئی کتاب تو مہنگی ہے‘کاغذ روز بروز سونے کے نرخ کی طرح گراں ہو رہاہے ‘آج آپکے پاس کمپیوٹر ہے تو دنیا کی بڑی لائبریریوں میں سے من چاہی کتاب اپنے گھر کے کمرے میں پرنٹر کےساتھ نکال کر ہاتھ میں تھام لیں بلکہ کتابیں تو چھوڑیں ٹی وی کے چینل بھی جلد ہی اپنی وقعت کھو دیں گے کیونکہ یہاں ہر ایک نے یو ٹیوب پر اپنا چینل کھول رکھا ہے‘ عالمی میڈیا کی خبریں دیکھ لیں ‘ وائس آف امریکہ سن لیں آپ کو دود ھ کا دودھ پانی کا پانی کر کے دکھلا دیں گے‘ نہ ہو تو بی بی سی کو سن لیں بلکہ دیکھ ہی لیں ‘غرض انفارمیشن کے درجنوں ذرائع ہیں ‘پھر کاغذ بچانے کی غرض سے اور قیمت زیادہ کرنے کے پیشِ نظر پبلشر نے کتاب کو چھوٹے فانٹ میں شائع کیاہوتا ہے جس کی وجہ سے کتاب کو ہاتھ لگانے کو جی نہیں کرتا‘ منٹو کاکوئی بھی افسانہ ہو نیٹ سے نکل آئے گا‘ پڑھنے کی تکلیف بھی گوارا نہیں کرنا پڑے گی‘ پڑھے گا بھی وہ جو نیٹ کے اندر موجو دآدمی ہے‘اگر آپ سننا بھی گوارا نہیں کرتے تو اسی افسانہ پر بنایا گیا ڈرامہ آپ کو دکھلادیں گے‘ایسے میں خود انصاف کریں کتاب کو کون ہاتھ لگائے گا ‘ کتابوں کی مارکیٹیں کیوں ویران نہیں ہوںگی‘ یہاں تو روپے پیسے کی دوڑ اتنی زیادہ ہے کہ کتاب نہ خریدو بائیک میں پٹرول ڈالو اور گھر کےلئے سبزی وغیرہ لے آ¶‘نیٹ پرلکھائی باریک ہے تو نزدیک کی عینک لگانے کی بھی ضرورت نہیں‘ حسبِ ضرورت بڑاکر کے گزشتہ روز تک کی اپ ڈیٹ کی ہوئی کتاب تسلی سے پڑھو ‘ اگر کتابیں فروخت ہو رہی ہیں تو وہ کورس کی کتابیں ہیں ‘گوشت کی پوری مارکیٹ جہاں سو پچاس دکانیں تھیں وہاں کپڑا بک رہاہے ‘جہاں لکڑیوں کی منڈی تھی وہاں دکانوں کے گوداموں میں ٹافیوں کے ٹرک کے ٹرک سامان اتار کر خالی کئے جا رہے ہیں۔