پُرفریب دنیا

امریکہ کے صدارتی انتخابات کے نتائج پر ”مسلم دنیا‘ ‘کی بھی نظریں ہیں‘ جنہیں صدر امریکہ کی تبدیلی کا شدت سے انتظار ہے کیونکہ صدر ٹرمپ نے مشرق وسطیٰ میں بنا خونریزی جس نئی صبح کی نوید سنائی تھی‘ اُس کے نتیجے میں اسرائیلی مفادات کا تحفظ زیادہ ہوا ہے جن تین عرب ممالک نے کئی دہائیوں سے اپنے حریف ملک اسرائیل کےساتھ سفارتی اور تجارتی معاہدے کئے اُنہیں کیا ملا اور اُن کی خارجہ پالیسی میں تاریخی تبدیلی کا مبینہ مظہر اُمت کے لئے کتنا مفید ثابت ہوا‘ یہ الگ اور قابل غور نکات ہیں۔ ستم پر آمادہ تازہ دم اسرائیل کے وزیر اعظم امن کا ایک نیا نقشہ پیش کر رہے ہیں جس میں خاصی تبدیلیاں دیکھنے میں آ رہی ہیں اور امن کی بجائے اب ایک ایسا نیا دائرہ جنم لے رہا ہے جس میں ہتھیاروں کی نئی دوڑ شامل ہے۔پہلا عرب ملک جس نے اسرائیل سے تعلقات بڑھانے میں لچک کا مظاہرہ کیا وہ متحدہ عرب امارات تھا‘ جس کی قیادت کو یقین پر مبنی زعم تھا کہ اِس طرح وہ امریکہ سے جدید جنگی طیارے حاصل کر لے گی۔ اسرائیل جو پہلے ہی فوجی طاقت کے اعتبار سے بہت آگے ہے اب اپنی طاقت میں مزید اضافے کی کوشش کر سکتا ہے۔دفاعی سازوسامان بنانے والی ایک کمپنی ”لاک ہیڈ مارٹن“ کا بنایا ہوا ایف پینتیس لائٹننگ ٹو دنیا کا جدید ترین کثیر الجہتی اور غیرمعمولی صلاحیتیں رکھنے والا جنگی طیارہ ہے۔ متحدہ عرب امارات گزشتہ چھ سال سے اِس کوششوں میں مصروف ہے کہ وہ واشنگٹن سے یہ طیارہ (ایف پینتیس ٹو) خرید کر پہلا عرب ملک بن جائے جس کے پاس اس قدر جدید لڑاکا طیارہ ہے‘ مذکورہ طیارے کی کمپیوٹنگ طاقت‘ سائبر پے لوڈ ڈیلیوری‘ ائرڈیفنس کو جام کرنے اور روایتی میزائلوں کو لے جانے کی صلاحیت گزشتہ بیس سال میں بنائے جانے والے طیاروں سے زیادہ ہے لیکن متحدہ عرب امارات کو یہ طیارے کسی بھی قیمت ادا کرنے پر رضامندی کے باوجود بھی نہیں مل رہے اور یہ امارات کےلئے اب عزت اور وقار کا مسئلہ بن گیا ہے‘ امریکی ذرائع ابلاغ پر نشر ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق ٹرمپ انتظامیہ نے کانگریس کو آگاہ کیا ہے کہ وہ متحدہ عرب امارات کو پچاس عدد ایف پینتیس طیارے فروخت کرنے کی اجازت دے‘ ذہن نشین رہے کہ اِن طیاروں کی کل مالیت 10.4ارب ڈالر ہے۔ اگرچہ متحدہ عرب امارات کی قیادت بار بار کہہ چکی ہے کہ اسرائیل سے ہونے والے معاہدے کا کوئی عسکری اور فوجی پہلو نہیں لیکن حقیقت یہی ہے کہ اسرائیل کے ساتھ تعلقات معمول پر لانے کا اصل و درپردہ محرک عسکری و فوجی ہی ہے اور معاہدہ ہونے کے بعد امریکہ کے لب و لہجے میں تبدیلی بھی آئی ہے‘ دوسری طرف اسرائیل میں بہت سے لوگ متحدہ عرب امارات کو ایف پینتیس طیاروں کی فروخت کے مخالف ہیں اور اس بات پر پریشان ہیں کہ اس سودے سے خطے میں اسرائیل کی برتری پر اثر پڑے گا‘ امریکہ کے قوانین میں یہ بات درج ہے کہ مشرق وسطی میں اسلحے کی فروخت کا ایسا کوئی سودا نہیں کیا جائے گا جس سے اسرائیلی فوج کو اپنے ہمسایہ عرب ملکوں پر حاصل دفاعی لحاظ سے اسلحے کی معیاری برتری پر منفی اثر پڑے یعنی خطے میں اسرائیل کو جو فوجی برتری حاصل ہے اسے بحال اور برقرار رکھنا امریکہ کے آئین کا حصہ ہے‘ مذکورہ امریکی قانون کی وجہ سے مشرق وسطی میں اسرائیل ایسا واحد ملک ہے جس کو ایف پینتیس طیارے چار سال قبل فراہم کئے گئے تھے اور سال 2024ءتک مزید طیارے بھی دیئے جائیں گے جن سے اسرائیل کے پاس ایف پینتیس طیاروں کی کل تعداد پچاس ہو جائے گی۔ اَیف پینتیس کی فی طیارہ قیمت دس کروڑ ڈالر ہے!اسرائیلی فضائیہ مئی 2018ءمیں ایک عرب ملک کے خلاف ’ایف پینتیس‘ طیارے کا استعمال کر چکی ہے اور اسرائیل ایسا پہلا ملک ہونے کا اعزاز بھی رکھتا ہے جس نے ایف پینتیس طیاروں کو پہلی مرتبہ جنگی کاروائیوں میں آزمایا ۔اِس پوری صورتحال میں مسئلہ متحدہ عرب امارات کا نہیں بلکہ نکتہ¿ نظر یہ ہے کہ اسرائیل سے تعلقات استوار کرنے والے اور دیگر عرب ممالک کو دوستی کی خواہش کے عوض کیا ملا یا کیا ملنے والا ہے؟ ثابت ہوا ہے کہ اسرائیل سے دوستی اِس سے دشمنی ہی کی طرح بے سود ہے اور یہی وجہ ہے کہ امریکہ میں صدر کی تبدیلی کی اُمید پر بہتری کی خواہش کرنے والے ’پُرفریب دنیا‘ کے جال میں پھنسے دکھائی دے رہے ہیں۔