ان دنوں ویسے بھی خزاں کا دور دورہ ہے جو فروری تک رہے گی۔ درختوں سے پتے جھڑ رہے ہیں۔ اس پت جھڑ میں جہاں زرد پتے اُڑے جاتے ہیں ۔وہاں ان درختوں کو ہی کیوں نہ کاٹ دیا جائے۔ شاید اس خیال سے یا کسی اور سوچ کے تحت کھیتوں کے کنارے درختوں کو بڑی سفاکی سے بجلی کے آرے کے ساتھ جلدی جلدی زمین کی جڑوں سے جدا کر کے وہیں پر ان درختوں کی لاشوں کے ڈھیر لگائے جا رہے ہیں۔مگر کون یہ جانے اور کون ان کو بتلائے کہ یہ درختوں کے مردہ جسم نہیں ہیں جو ایک قطار سے زمین پر دراز کر دیئے گئے ہیں۔یہ تو وہ مثال ہے کہ ہم جس شاخ پر بیٹھے ہیں خود اسے کاٹ رہے ہیں ۔ ہمیں اندازہ بھی نہیں کہ اس کاانجام آخر کیا ہوگا۔ جب یہ لہکتی ہوئی ان دنوں کے ڈھیلے ڈھالے پتوں کی ٹہنی زمین پر آ رہے گی اور ہم اس کے ساتھ ہی زمیں بوس ہو کر زیرِ زمیں چلے جائیں گے۔یہ درخت یہ بہادر سارجنٹ جو ہماری آب وہوا اور فضا کی حفاظت کو ہمہ وقت کھڑے رہتے ہیں ۔ دن ہو یا رات یہ اپنی ڈیوٹی نبھاتے رہتے ہیں۔ جب نہیں رہیں گے تو قاتل تیشے ان درختوں کے ساتھ ہمیں بھی چیر دیں گے۔یہ تو شہر کے اٹھنے والے دھو¶ں اور گیسوں اور حبس کے دشمن ہیں ۔ یہ ان دشمن عناصر کو ہریالی کے قریب بھی پھٹکنے نہیں دیتے ۔مگر جب خود ان کو غداری کر کے موت کے گھا ٹ اتار دیا جائے گا تو ہمارا والی وارث کون ہوگا۔کھیت کھلیان میدان بن رہے ہیں۔ جس رفتار سے درختوں کی پامالی جاری ہے اس رفتار سے ان کی آبیاری ان کی شجر کاری نہیں ہو رہی ۔سو آہستہ آہستہ یہ شہر بس ایک چٹیل میدان کی صورت میں سامنے آ جائے گا۔ جہاں پلاٹ ہی پلا ٹ ہوں گے گھر ہی گھر ہوں گے ۔پھر ان گھروں کے درمیان میں سے گذرتے ہوئے تنہائی کا احساس زیادہ ہو تا جائے گا۔مگر ان گھروں میںصحت مند لوگوں کی رہائش تو نہیں ہوگی۔ کوئی کس بیماری کا گرفتار ہوگا اور کوئی کس بیماری میں مبتلا ہو کر اوپرنیچے دنیا سے جاتا جائے گا۔بڑے کھیت کی باڑ پر لگے درخت اپنے منصب سے برطرف کر دیئے جاتے ہیں۔ درختوں کی لکڑی الگ فروخت کر دیتے ہیں ۔ پھر ہرے بھرے سر سبز کھیت کو میدان میں تبدیل کر کے ان کے آر پار چونے کے ساتھ لکیریں کھینچ دیتے ہیں ۔تاکہ دیکھنے والے کو اس میں دلچسپی محسوس ہو اور وہ اپنے لئے پلاٹ لینے کو کھنچا چلا آئے ۔ مگر عام طور سے آج کل ان زمین کے ٹکڑوں پر رہائش کرنے کا نہیںسوچاجاتا۔ آج کل تو سب کچھ کاروباری ہے ۔سب روپے پیسے کی گیم ہو رہی ہے۔پورے شہر پورے صوبے او رپورے ملک میں یہی رجحان غالب ہے ۔وہ غلط تو نہیں سوچتے ۔ کھیت بھلا کتنی آمدن دے گا۔ کیوں نہ اس میں زمین کے ٹکڑوں پر مبنی ایک کالونی سی بنا دی جائے جس سے بیس گناآمدنی زیادہ آئے ۔ ہر چند مالکان کی اپنی مرضی جن کو عدالت میں بھی کھینچانہیں جا سکتا ۔ کہیں گے ہماری زمین ہماری مرضی ۔ کوئی کون ہوتا ہے جو ہمیں اس کام سے روکے ۔ جس کو عام زبان میں سمجھ بوجھ کہتے ہیں جسے شعور کا نام دیا گیاہے ۔اس جنسِ نایاب کو ہمارے معاشرے ڈھونڈنا بے حد مشکل ہے ۔اگر کھیتوں کو ویران کر کے وہاں کالونیاں ہی بناناہیں تو وہاں درختوں کو تعداد میں پورے طور پر نہ کاٹا جائے۔ کچھ اس طرح کی سکیم نقشہ وغیرہ بنایاجائے کہ درخت بھی سلامت رہیں اور پلاٹنگ بھی ہو جائے۔کیونکہ درختوں کے کٹنے سے شہر کاجسم تو ہوگا مگر اس میں حرکت نہ ہو گی۔میں تو جب بھی درختوں کو کٹ کر آرا مشین تلے آتا دیکھتا ہوں توآنکھوں کے سفید ڈھیلے لال ہو جاتے ہیں۔مگر کیاکریں کیسے روکیں۔ بحث کے دوران میںکھڑے کھڑے ہلکاکر کے بھیج دیں گے ۔ کہہ دیں کہ ہماری چیز ہے ۔سو اپنی سی صورت لے کر آگے کو روانہ ہونا پڑے گا۔ ان کو پیار سے بھی سمجھا¶ تو سر سے لے کر پا¶ں تک حیرانی سے دیکھیں گے ۔سوچیں کہ انسانوں کے اس جنگل میں کون آگیا ہے ۔درختوں کو نہ کاٹیں ۔ کیوں نہ کاٹیں بھائی صاحب عجب کہہ رہے ہیں ۔سو اپنی عزت اپنے ہاتھ میں ہے ۔کیوں نہ اپنا راستہ ناپا جائے۔ یہ تو جب ان کے اپنے گھرمیں سے خدا نہ کرے کوئی سانس کا مریض نکل آئے توپھران کو معلوم ہوگا کہ درختوں کی کتنی اہمیت ہے ۔اس کےلئے اسمبلی میں کوئی قانون سازی ہو کو ئی بل پاس ہوان کو ٹی وی اور ریڈیو کے ذریعے تعلیم دیں تاکہ ان کو آہستہ سہی مگر یہ معلوم ہو کہ یہ درخت نہیں یہ تو ماحول کے پھیپھڑے ہیں ۔ماحول کے پھیپھڑے خراب ہو ں گے تو ماحول کیسے درست ہوگا۔مجھے تو یوں لگتا ہے یہ آرا جو درخت کے آر پار چل رہاہے میرے جگر پر چلایاجا رہاہے۔کلیجہ چیرجاتاہے ۔مگر درختوں کو چیرنے والوں کا گریبان تک بھی کوئی چیرنے والانہیں ہے ۔جو ان کو روکے مگر یہ تو ترقی یافتہ قوموں کی باتیں ہیں جن سے ہم کوسوں دور ہیں۔ماحول کو درست رکھنے کافرض ہر شہری پرعائد ہو تا ہے ۔خواہ ماحول کو اپنے کردار سے درست کرنا ہے یا درختوں کی بہتات سے کسی قابل بنا نا ہے۔مگر اچھے ماحول میں ہماری زندگی ہے ۔