وفاقی وزراءاور اتحادی جماعتوں کے وفود کے درمیان ملکی معاشی اور سیاسی صورتحال پر تبادلہ¿ خیال خوش آئند ہے جس سے اُمید ہے کہ پاکستان کو بہتر بنانے کے لئے کوششوں میں تیزی آئے گی اور اُن سبھی اعلانات کو بھی عملی جامہ پہنایا جائے گا‘ جو اقتدار میں آنے سے قبل اور اقتدار میں آنے کے بعد سے تکرار ہو رہے ہیں لیکن اگر ہدف حزب اختلاف کی احتجاجی تحریک سے نمٹنے جیسا وقتی ہدف ہے تو حکمراں اور اتحادی جماعتوں کو اِس سطح سے بلند ہو کر قومی مسائل کو دیکھنا ہوگا جن میں سرفہرست مہنگائی و بیروزگاری ہیں۔وزیراعظم عمران خان کی جانب سے اِس بات کا یقین دلایا جا رہا ہے کہ حزب اختلاف پاکستان کو نقصان پہنچانے کے درپے ہے اور احتجاجی تحریک کی صورت بلیک میلنگ کے ذریعے احتساب سے بچنا چاہتی ہے اور شواہد سے یہ حقیقت ثابت بھی ہوتی ہے کہ حزب اختلاف کی احتجاجی تحریک کا بنیادی نکتہ مہنگائی و بیروزگاری نہیں۔ میڈیا رپورٹس کے مطابق تحریک انصاف کے حلقوں اور اِس کی اتحادی جماعتوں نے یک جہتی کا اظہار کرتے ہوئے روزافزوں مہنگائی پر بحث کی ہے۔ منتخب اراکین اسمبلی نے وزیراعظم کے سامنے شکایات کے انبار بھی لگائے جبکہ انہوں نے ترقیاتی فنڈز اور میگا پراجیکٹس نہ دیئے جانے پر بھی تحفظات کا اظہار کیا۔ ذرائع کے مطابق وزیراعلیٰ بلوچستان اور بلوچستان عوامی پارٹی کے سربراہ جام کمال نے وفاقی حکومت کی جانب سے وعدوں کی تکمیل نہ ہونے کی شکایت کی۔ اسی طرح سندھ سے اتحادی جماعتوں کے قائدین کا کہنا تھا کہ سندھ کے ہر محکمے میں صرف پیپلزپارٹی کا کنٹرول ہے‘ سندھ کی بیوروکریسی وفاق کے منصوبے بھی پیپلزپارٹی کی مرضی سے چلا رہی ہے۔ انہوں نے اس امر پر زور دیا کہ حکومت وفاقی منصوبوں پر اتحادی جماعتوں کو ساتھ لے کر چلے۔ فنکشنل لیگ کے سربراہ پیرپگاڑا نے اندرون سندھ کے عوام کو نظرانداز کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا اور کہا کہ ہم اتحادی ہیں مگر حکومت اس کا ثبوت نہیں دے رہی۔ وفاقی وزیر ڈاکٹر فہمیدہ مرزا نے بھی اندرون سندھ کو نظرانداز کرنے پر تحفظات کا اظہار کیا جبکہ ایم کیو ایم کی جانب سے کراچی ٹرانسفارمیشن پلان پر عملدرآمد کے حوالے سے تحفظات کا اظہار کیا گیا۔ اس موقع پر وزیراعظم نے اتحادی جماعتوں کو یقین دہانی کرائی کہ مہنگائی اور حلقوں کے مسائل کا انہیں خود بھی احساس ہے۔ اُن کے بقول ہر جگہ مافیا بیٹھا ہے جو تبدیلی کی راہ میں رکاوٹ ہے۔تحریک انصاف کو عوام نے دوہزاراٹھارہ کے عام انتخابات میں وفاقی اور صوبائی حکمرانی کا جو مینڈیٹ دیا‘ اُس کا خاطرخواہ احترام دیکھنے میں نہیں آ رہا تاہم اس حقیقت سے بھی انکار ممکن نہیں کہ تحریک انصاف کو سوائے خیبر پختونخوا کے وفاق اور صوبوں میں تن تنہا اکثریتی جماعت کے طور پر عوام کی حمایت حاصل نہیں ہوئی چونکہ حکومت کی تشکیل کے لئے تحریک انصاف کو وفاق‘ پنجاب اور بلوچستان میں سادہ اکثریت حاصل نہیں تھی اس لئے حکومت سازی کے عمل میں دیگر جماعتوں اور آزاد حیثیت میں منتخب ہونے والے ارکان قومی و صوبائی اسمبلی کی حمایت حاصل کرنا پڑی‘ جو تحریک کی مجبوری بن چکا ہے۔ نئے پاکستان کے نعرے کے تحت ’بدعنوانی سے پاک معاشرے (کرپشن فری سوسائٹی)‘ کی تشکیل اور عوام کے روٹی روزگار کے گھمبیر مسائل کے حل کے منشور کی بنیاد پر عوامی مینڈیٹ ملا تاہم ان کی اتحادی جماعتوں کی اپنی ترجیحات ہیں جو ترقیاتی منصوبوں میں مناسب حصہ نہ ملنے اور مہنگائی میں روزافزوں اضافے کا باعث بننے والی حکومتی پالیسیوں سے اکثر اوقات شاکی ہی نظر آئی ہیں۔ بالخصوص مسلم لیگ (قائداعظم) کی قیادت کی جانب سے حکومت کی بعض قومی پالیسیوں پر بھی تحفظات کا اظہار کیا جاتا رہا ہے۔ اگر حکومتی اتحاد میں شامل ہونے کے باوجود مسلم لیگ (قاف) وزیراعظم کے اہتمام کردہ کھانوں میں شریک نہیں ہوتی اور وفاقی وزیر طارق بشیر چیمہ اس امر کا اظہار بھی کرتے ہیں کہ ہماری قیادت کے تحفظات ہیں جن کا ازالہ نہیں کیا گیا اور نہ ہی فیصلہ سازی کے کسی عمل میں ہمیں شریک کیا جاتا ہے تو اس اہم اتحادی جماعت کی حکومتی کھانوں میں عدم شمولیت محض اتفاقی نہیں ہو سکتی بلکہ اس کی قیادت کی جانب سے حکومت کے پالیسی معاملات پر باقاعدہ تحفظات کا اظہار کرکے وزیراعظم کے کھانے میں شریک نہ ہونے کا اعلان کیا جاتا ہے۔ منتخب ایوانوں میں حکومتی اتحادی حکومت کے پالیسی معاملات کے ساتھ یکجہت ہیں تاہم حکمران تحریک کی جانب سے ان کے تحفظات کرنے میں وقت لگ رہا ہے جس سے حکومت کے لئے مشکلات بھی پیدا ہو سکتی ہیں ۔ اس وقت حکومت مخالف اتحاد ’پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ (پی ڈی ایم)‘ کی جانب سے ایڑی چوٹی کا زور بھی لگایا جارہا ہے جبکہ حکومت مخالف تحریک میں ’پی ڈی ایم‘ نے ہاﺅس کے اندر سے تبدیلی کا آپشن بھی اپنے ایجنڈے میں شامل کیا ہوا ہے۔ یہ بھی امر واقع ہے کہ تحریک انصاف اور اس کے اتحادیوں کے اقتدار کے دو سال سے زائد عرصے کے دوران عوام کے غربت‘ مہنگائی‘ بے روزگاری کے مسائل کم ہونے کی بجائے مزید گھمبیر ہوئے ہیں جس پر عوام الناس کی اکثریت مضطرب ہے۔ اس صورتحال میں عوام کو حکومت مخالف تحریک کے اپنے حق میں استعمال کرنا حزب اختلاف کے لئے زیادہ آسان ہے تو اِس آسان کو مشکل بنانے اور تبدیلی کی راہ میں حائل رکاوٹیں دور کرنے کے لئے مہنگائی و بیروزگاری میں کمی لانے کے سوا چارا نہیں رہا۔ حکمراں جماعت کو سمجھنا ہوگا کہ صرف حزبِ اِختلاف ہی نہیں بلکہ اِتحادی جماعتیں بھی ”موقع اور حالات کی نزاکت کا فائدہ“ اُٹھانے کی کوشش کر رہی ہیں اور سیاسی جماعتوں کے مطالبات کا پیٹ کبھی نہیں بھرتا اِس لئے حزب اختلاف کے اتحادی ہوں یا حزب اختلاف کی جماعتیں اِن دونوں کی ”بلیک میلنگ“ سے بچنے کی واحد صورت عوام کو مہنگائی و بیروزگاری سے ریلیف دینا ہے۔