ایک منچلے نے کیا خوب کہا ہے کہ جس قسم کی سیاست اس ملک میں رائج ہے اس کو گجرات کے چوہدری براردان اور مولانا فضل الرحمن صاحب سے بہتر کوئی دوسرا سیاستدان نہیں سمجھ سکتا اور نہ ہی اس کی تہہ تک پہنچ سکتا ہے ‘گجرات کے چوہدری برادران عمران خان صاحب کے سیاسی حلیف ہیں ‘گزشتہ جمعرات کے دن وزیر اعظم صاحب نے اپنی اتحادی سیاسی پارٹیوں کے رہنماو¿ں کو وزیراعظم ہاو¿س میں ظہرانے پر مدعو کیا تھا جس کا انہوں نے بائیکاٹ کیا فارسی کا ایک مقولہ ہے دل نہ دارد عزر بسیار ‘ ظہرانے میں نہ جانے کا انہوں نے بہانہ یہ تراشا کہ وہ بے شک پاکستان تحریک انصاف کے اتحادی تو ہیں پر اس کے ساتھ اتحاد کی شرائط میں یہ کہیں بھی درج نہیں کہ وہ وزیر اعظم کا دیا ہوا کھانا ضرور کھائیں گے ‘ق لیگ والوں کا ایک گلہ یہ بھی ہے کے ان کے رہنما چوہدری شجاعت حسین عرصہ دراز سے بیمار ہیں پر وزیر اعظم صاحب نے ان کی بیمار پرسی کے لئے ان کے گھر جانے کی تکلیف گوارا نہیں کی ‘ یہ اس ملک کی بدقسمتی ہے کہ سیاسی پارٹیاں اور ان کے رہنما برسر اقتدار پارٹی کی کمزوریوں اور مجبوریوں کا فائدہ اٹھاتے ہیں اور اپنی سیاسی خواہشات کی تکمیل کے لئے وہ اکثر اوقات معمولی معمولی باتوں پر برسر اقتدار حکومت سے شکر رنجی کا مظاہرہ اس لئے کرتے ہیں کہ اس کے بدلے میں انہوں نے حکومت وقت سے کوئی سیاسی یا مالی فائدہ حاصل کرنا ہوتا ہے عوام کا نام لے کر عوام کو لوٹنے والے لوگوں کی اس ملک میں کوئی کمی نہیں اگر آپ مخلوط حکومتوں کی کارکردگی پر ایک تنقیدی نظر ڈالیں تو آپ اس نتیجے پر پہنچیں گے کہ مخلوط حکومت میں برسراقتدار سیاسی پارٹی ہمیشہ اپنے سیاسی اتحاد یوں کے رحم وکرم پر ہوتی ہے ‘یہ وہ بدقسمت ملک ہے کہ جس کے عوام کو مختلف بہانوں سے لوٹا گیا ہے اور یہ ایسا سلسلہ ہے کہ جو ختم ہونے کا نام ہی نہیں لے رہا ‘خدا عوام کو یہ عقل دے کہ وہ کسی کے جھانسے میں آ نا چھوڑ دیں ورنہ ان کی حالت کبھی بھی بہتر نہیںہو سکے گی اور وہ ہمیشہ ان کے چنگل میں پھنسے رہیں گے۔عوام کی یادداشت کمزور ہے اور اسی کمزوری کا بعض سیاست دان فائدہ اٹھاتے آ ئے ہیں ‘بادی النظر میں اپوزیشن اور حکومتی پارٹی کے درمیان اختلافات کی خلیج مزید گہری ہوتی جا رہی ہے ‘عمران خان یہ کہتے ہیں کہ ہم قومی ڈائیلاگ چاہتے ہیں مگراپوزیشن این آ ر او مانگتی ہے ان کا موقف ہے کہ اگر نیب کیسز میں رعایت دینی ہے تو ڈائیلاگ کا کیا فائدہ اگر حالات یوں ہی بگڑتے رہے اور ملک کا نظم و نسق حکومت اور اپوزیشن کے درمیان اختلافات کی بھینٹ چڑھ گیا تو اس صورت میں تو پھر واحد راستہ یہ نظر آتا ہے کہ عمران خان پارلیمنٹ کو تحلیل کر دیں اور فوری طور پر نئے عام انتخابات کا انعقاد کریں وہ پھر اس صورت میں عوام سے یہ کہہ سکتے ہیں کہ اگر وہ چاہتے ہیں کہ ان کی پارٹی کے وضع کردہ منشور پر سو فیصد عمل درآمد ہو تو ان کو الیکشن میں انہیں واضح اکثریت دلوانی ہوگی تاکہ پارلیمنٹ میں ان کی عددی قوت اتنی ہو کہ ان کو حکومت چلانے کیلئے کسی سیاسی جماعت کی بیساکھیوں کی ضرورت نہ پڑے ‘نئے جنرل الیکشن سے ملک کے خزانے پر اضافی بوجھ تو خواہ مخوا ہ پڑے گا اور ملک میں ترقیاتی عمل مزید ایک آ دھ سال کے لئے رک جائے گا پر اس کڑوی گولی کو کھائے بغیر ملک کے موجودہ سیاسی مسئلہ کا حل نظر دکھائی نہیں دیتا اگر حالات کو اسی طرح جاری رہنے دیا گیا تو اپوزیشن روزانہ کسی نہ کسی شہر قصبے یا گاو¿ں میں جلسے اور جلوسوں کا انعقاد کرتی رہے گی ‘اگر حکومت نے سیاسی لوگوں کی پکڑ دھکڑ شروع کر دی تو اس سے خدشہ یہ ہے کہ حالات مزید خراب ہو جائیں گے۔ ادھر ہمارے بارڈر پر جو خطرہ منڈلا رہا ہے وہ حکومت کی خصوصی توجہ کا مستحق ہے ۔