امریکہ کے صدارتی انتخاب میں ڈیموکریٹک پارٹی کے نامزد امیدوار ’جو بائیڈن‘ کی کامیابی کا اعلان پاکستان کے معیاری وقت کے مطابق سات نومبر کی شب 9 بج کر 28 منٹ پر خبررساں ادارے ’ایسوسی ایٹڈ پریس (AP)‘ نے کیا جو ایسے مواقعوں پر نتائج کا اعلان کرنے کا مستند ذریعہ ہے اور عالمی سطح پر ’اَے پی‘ کی جانب سے اعلان ہی کو حتمی سمجھا جاتا ہے تاہم اِس اعلان سے کئی گھنٹے قبل مختلف امریکی و غیرملکی ذرائع ابلاغ صدر جو بائیڈن کی فتح کا اعلان کر چکے تھے جنہیں جیت کے لئے 270 الیکٹورل ووٹس کی ضرورت تھی لیکن غیرسرکاری نتائج کے مطابق وہ 283 الیکٹورل ووٹس حاصل کر چکے ہیں جبکہ کئی ریاستوں میں ووٹوں کی گنتی کا عمل جاری ہے! امریکی صدارتی انتخابات غیرمعمولی حالات میں منعقد ہوئے اور اِن کے نتائج اعصاب شکن انتظار کے بعد سامنے آئے ہیں‘ جن پر دنیا کی نظریں جمی ہوئی تھیں۔ 78 سالہ جو بائیڈن کی کامیابی کی تصدیق کے بعد صدارتی انتخاب کے بعد تین روز تک نتائج کے حوالے سے جاری کشمکش اور غیر یقینی کی صورتحال اگرچہ بظاہر ختم ہوگئی ہے لیکن مدمقابل ری پبلکن اُمیدوار اور موجودہ صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے انتخابات کی شفافیت پر سوال اُٹھاتے ہوئے ”قانونی جنگ“ چھیڑنے کا اعلان کیا ہے ایسی صورت میں صدارتی انتخابات کے مستقبل پر سوالات اٹھ رہے ہیں اور اطلاعات کے مطابق کئی امریکی ریاستوں میں انتخابات کے نتائج کو چیلنج کر دیا گیا ہے جبکہ یہ سلسلہ ووٹوں کی گنتی مکمل کرنے کے بعد مزید پھیل جائے گا۔امریکہ کے انتخابی قواعد کی رو سے کوئی بھی امیدوار دوبارہ گنتی کی درخواست صرف اس صورت میں دے سکتا ہے جب جیت کا فرق صرف ایک فیصد ہو چونکہ جو بائیڈن کی جیت کا مارجن چند ریاستوں میں ایک فیصد ہے اس لئے دوبارہ گنتی کی درخواستیں کئی ریاستی عدالتوں نے قبول کی ہیں لیکن یہ درخواستیں سترہ نومبر سے پہلے نہیں دی جاسکتیں جو گنتی کا عمل مکمل ہونے کی آخری تاریخ (ڈیڈلائن) ہے۔ قواعد کی رو سے دوبارہ گنتی کی درخواستوں کے ساتھ وجوہات کا بیان کرنا بھی لازمی ہے‘ جن میں عمومی غلطیاں‘ کسی وارڈ میں دھوکہ دہی کے شواہد‘ بیلٹ پیپروں کا درست نہ ہونا‘ بے ضابطگیاں اور الیکشن میں غیر قانونی رویئے اختیار کرنے جیسے الزامات شامل ہوتے ہیں لیکن یہاں یہ بات یاد رہے کہ جوبائیڈن کو حاصل ووٹوں کی مجموعی برتری دوبارہ گنتی سے ختم ہونا تقریباً ناممکن ہے۔صدر ٹرمپ کا بیانیہ خاصہ دلچسپ اور سبق آموز ہے اور اس بیانیئے کی تشکیل و تشہیر انہوں نے مہینوں پہلے شروع کردی تھی۔ پہلے تو انہوں نے پوسٹل بیلٹ کو فراڈ کا ذریعہ بتایا پھر انہوں نے دعویٰ کیا کہ ڈیموکریٹ حکومت والی ریاستوں میں گورنر گنتی کے انچارج ہیں۔ اس کے بعد انہوں نے کہا کہ مذکورہ انتخابات کے دن کے بعد ہونے والی گنتی جو قانونی طور پر جائز ہے‘ بدنیتی پر مبنی ہے اور نتائج اسی رات سامنے آجانے چاہئیں۔ اب صدر ٹرمپ نے دوبارہ گنتی کا جو راستہ اپنایا ہے وہ ایک طویل اور دشوار راستہ ہے۔ صدر ٹرمپ کی طرف سے گنتی روکنے کے مطالبات میں بھی نمایاں تضاد ہے جن ریاستوں میں ان کے الیکٹورل کالج ووٹ بڑھنے کا امکان ہے وہاں وہ گنتی جاری رکھنا چاہتے ہیں لیکن جہاں انہیں کم ووٹ ملنے کی صورت نقصان کا احتمال ہے وہاں ووٹوںکی گنتی رکوانے کے درپے ہیں! اس نمایاں تضاد کو اجاگر کیا گیا تو عدالت ٹرمپ کی درخواستوں کو مسترد کرنے میں دیر نہیں لگائے گی۔ ایک طرف قبل از وقت اعلانِ فتح اور خوشی کے شادیانے اور دوسری طرف پوسٹل بیلٹ کھلنے کے بعد دھاندلی کی شکایت اور گنتی روکنے پر زور نے صدر ٹرمپ کے کیس کو کمزور کیا ہے اور ٹرمپ کے قبل از وقت اعلانِ فتح اور پھر دھاندلی کے الزامات کو الیکشن کی ساکھ متاثر کرنے کی کوشش کے طور پر بھی دیکھا جا رہا ہے۔ صدر ٹرمپ چونکہ ہفتوں پہلے سے ہی پوسٹل بیلٹ کو متنازعہ بنا رہے تھے اور قانونی کاروائیوں کی دھمکیاں دے رہے تھے اس لئے جو بائیڈن کی انتخابی مہم کے اراکین پہلے سے ان قانونی چیلنجز کے لئے تیار تھے۔ جو بائیڈن کی انتخابی مہم کو وائٹ ہاو¿س کے سابق وکیل کی خدمات حاصل ہے اور عدالتی کاروائیوں کے بھی اخراجات پہلے سے فنڈ کی صورت جمع کر لئے گئے تھے۔ حیران کن ہے کہ امریکی صدر جیسے ذمہ دار عہدے پر فائز ڈونلڈ ٹرمپ الزامات تو عائد کر رہے تھے لیکن ان الزامات کی تائید میں دستاویزی ثبوتوں کی صورت اُن کی تیاری مکمل نہیں تھی‘ اس لئے ہنگامی بنیادوں پر عطیات کی اپیلیں کی گئیں اور قانونی جنگ کی وجہ سے لگتا ہے کہ امریکی صدارتی انتخابات کے نتائج آئندہ کئی دنوں یا ہفتوں تک ’اہم خبروں‘ کا حصہ رہیں گے۔امریکہ ہو یا پاکستان‘ صدارتی ہوں ہو یا غیرصدارتی عام انتخابات کی طرح انتخابی عمل کی ساکھ بھی اہم ہوتی ہے اور اِس ساکھ کو مجروح ہونے سے بچانا ضروری ہوتا ہے لیکن ڈونلڈ ٹرمپ اگر غیرذمہ دار نہیں تو غیرمحتاط ضرور ثابت ہوئے ہیں کہ اُنہوں نے انتخابی مہم کے دوران (ووٹ ڈالنے سے کئی ہفتے پہلے) یہ تاثر دینے کی کوشش کی کہ وہ انتخابات شفاف نہیں ہوں گے اور پھر اُنہوں نے پوسٹل بیلٹس پر یہ کہتے ہوئے سوال اُٹھایا کہ پولنگ کا وقت ختم ہونے کے بعد بھی ووٹ ڈالنے کا سلسلہ جاری رہا! حالانکہ یہ تاثر بے بنیاد تھا اور امریکہ میں ڈاک کا نظام انتہائی جدید شکل میں موجود ہے جس میں غلطی کا احتمال ایک فیصد بھی نہیں۔ اصل بات یہ ہے کہ ریاست پنسلوینیا سمیت کئی دور دراز ریاستوں میں دیا گیا تمام پوسٹل ووٹ تاخیر سے پہنچتا ہے لیکن وہ قابلِ شمار رہتا ہے کیونکہ لفافے پر محکمہ ڈاک کی جانب سے تاریخ اور وقت کی مہر ایک خودکار کمپیوٹرائزڈ نظام کے ذریعے لگائی جاتی ہے۔ اِس لئے بھلے ہی ووٹ گنتی کے مراکز تک تاخیر سے پہنچیں لیکن وہ قابل شمار اور مستند رہتے ہیں۔ صدر ٹرمپ نے جب اعلانِ فتح کیا تو ان کی مختصر سی تقریر میں بھی تضاد نمایاں تھا۔ انہوں نے ایریزونا میں گنتی جاری رکھنے کی حمایت کی جہاں ان کے خیال میں وہ جیت سکتے تھے لیکن مشی گن اور وسکونسن میں گنتی روکنے کی بات کی۔ انہوں نے ان میڈیا نیٹ ورک پر بھی ناراضگی کا اظہار کیا جنہوں نے ایریزونا سے ان کی جیت کے اندازے نشر نہیں کئے۔ صدر ٹرمپ امریکی تاریخ کے پہلے صدر ہیں جنہوں نے انتخابی عمل کی ساکھ پر سوال اُٹھایا اور اپنے سوال (اعتراض) کے ساتھ ہی اُن کی قیادت کا سورج غروب ہو چکا ہے۔ یہ صورتحال پاکستان سمیت اُن سبھی ممالک کی سیاسی قیادت اور سیاسی کارکنوں کے لئے لائق توجہ ہے جو بیانات کے ذریعے انتخابات کی ساکھ تو مشکوک بناتے ہیں لیکن اُن کے پاس دستاویزی ثبوت نہیں ہوتے اور اُنہیں ایک نہیں بلکہ دو (انتخابی و قانونی) محاذوں پر بیک وقت شکست کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔