بیان۔ بیانیہ ۔ بیانات

 مسئلہ تو یہ پیدا ہوا ہے کہ کسی کو بولنے کا سلیقہ نہیں ‘اب سے پہلے سب بولتے تھے سب سنتے تھے مگر اب باقی کے سننے والے بھی تو بولنے لگے ہیں۔ پہلے تولو پھر بولو والی پالیسی تو گئی گھاس کھانے۔ اب جس کے منہ میں جو آتا ہے بولتا ہے اور بولتا چلا جاتا ہے ۔ہر تقریر کرنے والا سمجھتا ہے کہ ملک کے بائیس کروڑ عوام اسی کے ساتھ ہیں ۔سو کوئی مجھ پر کیا اعتراض کرے گا۔ مگر الزام لگانے والے الزام نہیں چُوکتے ۔تقریر کرنے والے سمجھتے ہیں ”ہے بولنا ہی رسمِ جہاں ہے بولتے رہو“کیونکہ چپ رہو گے تو انگلیاں اٹھیں گی ۔ایک مقرر کے بارے میں یہ ہے کہ اگر بولنانہیں آتا تو کیا بولنا ضروری ہے ۔سٹیج پر چپ بھی تو بیٹھا جا سکتا ہے ۔کہہ دیں گے کہ آپ بولنا نہیں چاہتے اس لئے آج دوسروں کو بولنے کا موقع دیں گے۔یہ شاید بچپن میں لکھتے پڑھتے نہیں تھے اس لئے نواب بن گئے ۔اگر کھیلتے کودتے تو شاید اس قسم کی بیان بازی نہ کرتے خوبصورتی کا کیا معیار ہے ۔ جانے یہ کس قسم کی زبان استعمال ہو رہی ہے ۔لگتا ہے اب تو کارکردگی دکھلانے کا موسم نہیں رہا ۔اب تو جو اپنی بولی بولتے ہوئے اپنی زبان کو قابو میں رکھے گا وہی آئندہ کے لئے سر پر تاج سجائے گا۔” باقی جو چپ رہو گے تو اٹھیں گی انگلیاں۔ ہے بولنا ہی رسمِ جہاں بولتے رہو۔ باقی صدیقی نے کسی زمانے میں شعر کہاتو لگتا ہے انھیں آج کی ہماری سیاسی رسہ کشی کا حال اپنے پانی کے پیالے میں نظر آ گیا تھا۔لگتا ہے کہ خزاں کا نہیں یہ بول چال کا موسم آگیا ہے۔ جو بولے گا سمجھتا ہے کہ وہی جیتے گا اور مزید سمجھتا ہے کہ وہی جیت رہاہے ۔خواہ میدان میں یا لوگوں کے دل کیوں نہ جیت لے مگر یہاں تو دل جیت لینے سے بات نہیں بنتی ۔ یہاں تو میچ جیت جانابہت ضروری ہے ۔ جس میں سٹہ بازی کی گیم پر کروڑوںروپے لگے ہیں ۔مگر میچ میںاگر نیوٹرل ایمپائر نہ ہو تو سٹہ بازی میں لگی ہوئی رقمیں بھی ڈوب سکتی ہیںاور الٹا گیم چینج کرنے والے خود بھی ہار سکتے ہیں ۔یہاں تو الزام کی سیاست نے آنکھ کھولی ہے ۔ہر آدمی اپنا سب کچھ اس آگ میں جھونک دینا چاہتا ہے ۔مگر یہاں تولنے کا وقت نہیں بس بولنا ہے خواہ اس سے کسی کے دل کی نازک رگیں کٹ جائیں ۔مگر اسی میں مزہ ہے ‘ہمارا کام یہی ہے کہ ہم کسی کے ہو بس مخالف بولیں ۔ اس سے ہمیں اور ہمارے چاہنے والوں کو سکون ملے گا۔تہذیب او رشائستگی کیا ہے یہ اس سے ناواقف ہوئے جاتے ہیں ۔ مہذب لوگ مہذب گفتگو کرتے ہیں ۔مگر اس سے ان کو سروکار نہیں ۔یہ تو بس اپنا راگ الاپنا چاہتے ہیں چاہے کسی کے کان کے پردے پھٹنے کیوں نہ لگیں۔ مگر یہ بولیں گے اور ایسا ویسا کہ سننے والے گھر بیٹھے ٹی وی کے آگے توبہ توبہ کرتے رہیں۔ ہمارے ہاں جمہوریت کے بارے میں کہا جاتا ہے کہ ترقی کر رہی ہے۔اس کا ثبوت آپ آج کل کے سیاسی تھیٹر کے جلسوںمیں دیکھ لیں۔پھر اس کے علاوہ ہر مقرر خواہ وطن میں ہے یا وطن سے باہر ویڈیولنک پر ہے اسے یہ شعور نہیں کہ کون سی بات کرنے کی ہے اور کون سی چھوڑ دینے کی ہے ۔ان کہی ان کہی رہے تو اچھا ہے ۔کوئی تو راز کھولنے میں لگا ہے کوئی وہ الفاظ ادا کررہا ہے کہ فیملی میں بیٹھ کر فوراً ٹی وی بند کردینے میں بہتری ہوتی ہے ۔