سابق امریکی نائب صدر جو بائیڈن چوہتر ملین سے زیادہ عوامی ووٹ اور تاحال دوسو اناسی انتخابی کالج ووٹ حاصل کرکے امریکہ کے چھیالیسویں صدر منتخب ہوگئے ہیں مگر صدر ٹرمپ ان کی فتح کو ماننے کےلئے تیار نہیں اور عدالتوں میں بزعم خود "انتخابی دھاندلی" کے خلاف اور دوبارہ گنتی کےلئے درخواستیں دے رہے ہیں۔ہفتے کو صدر ٹرمپ کو جب یہ اطلاع دی گئی کہ تمام بڑے میڈیا ادارے جو بائیڈن کو نو منتخب امریکی صدر قرار دے رہے ہیں تو انہوں نے قانونی جنگ جاری رکھنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے کہا کہ "مسٹر بائیڈن فاتح کی حیثیت سے "جھوٹے دعوے" کر رہے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ یہ الیکشن ختم ہونے سے ابھی دور ہے۔ پیر کے روز سے ، ہماری ٹیم عدالت میں مقدمے دائر کروا دے گی تاکہ انتخابات کا صحیح فاتح قرار دیا جاسکے"۔صدر ٹرمپ نے اب تک ثابت کیا ہے کہ اپنے مفاد کےلئے قومی روایات، اصول اور قوانین کو نظرانداز کرنا ان کی عادت ہے۔ اب بھی نظر آرہا ہے کہ وہ سابق امریکی امیدواروں کی طرح اپنی ہار مانیں گے نہ جیتنے والے کو مبارکباد دیں گے، نہ اسے وہائٹ ہاوس میں میٹنگ کےلئے بلائیں گے اور نہ ہی اس کی تقریب حلف برداری میں شرکت کریں گے۔امریکی عوام نے اپنا فیصلہ دے دیا ہے۔ صدر ٹرمپ کے حاصل کردہ عوامی ووٹ جو بائیڈن سے چالیس لاکھ کم ہیں۔ انہیں انتخابات کے نتائج رکوانے اور تبدیل کرنے کےلئے عدالتوں سے زیادہ تعاون ملنے کا امکان نہیں کیوں کہ ان کے پاس دھاندلی کا کوئی ثبوت موجود نہیں۔ لیکن اپنی شکست نہ مان کر وہ ثابت کرچکے کہ انہیں عوام کا صرف اپنے حق میں کیا گیا فیصلہ ہی قبول ہے۔ مسٹر ٹرمپ اور ان کی ٹیم انتخابات سے پہلے کہہ رہے تھے کہ انتخاب شفاف ہوا تو وہ جیتیں گے اور اگر وہ ہارتے ہیں تو یہ دھاندلی کا نتیجہ ہوگا۔ وہ سازشی نظریات پھیلاتے رہے کہ امریکی ادارے، میڈیا گروپس اور غیرملکی انٹلی جنس ایجنسیاں ان کا مینڈیٹ چوری کریں گے۔ انتخابات کے بعد انہوں نے دعویٰ کیا کہ وہ انتخابات اصل میں بھاری اکثریت سے جیت چکے لیکن گنتی کرنے والے عملے اور پوسٹل بیلٹس کے ذریعے دھاندلی کرکے جو بائیڈن کو کامیاب قرار دیا گیا۔ انہوں نے جعلی ویڈیوز تیار کرکے پھیلائیں۔ فیس بک اور ٹوئٹر کو جھوٹے پروپیگنڈے اور غیر مستند الزامات لگانے کےلئے استعمال کیا حتیٰ کہ فیس بک اور ٹوئٹر نے ان کے کئی پیجز اور گروپس بند کروا دئیے بلکہ ٹوئٹر کو صدر ٹرمپ کی ٹویٹس کے ساتھ "گمراہ کن" وغیرہ جیسے لیبل بھی لگانے پڑے اور ان کی رسائی بھی محدود کرنی پڑی۔صدر ٹرمپ کو اپنی شکست سامنے نظر آرہی تھی لیکن وہ اپنا تسلسل چاہتے تھے۔ چنانچہ وہ اپنے مفاد کےلئے امریکہ کے پورے نظام انتخاب کو مشکوک قرار دینے لگے۔ لیکن امریکی اداروں کو داد دینی پڑتی ہے کہ انتخابات سے پہلے، دوران اور بعد کسی بھی امریکی ادارے نے ان کے الزامات کی تصدیق کی نہ کسی عدالت نے ان کے انتخابات میں دھاندلی کے الزامات کو درست سمجھا۔ یہاں تک کہ مسٹر ٹرمپ کے سب سے قدیم مشیر ، نیو جرسی کے سابق گورنرکرس کرسٹی، نے بھی کہا کہ انہیں انتخاب کے بارے میں دعوے کرنے کےلئے حقیقی ثبوت ہونے کی ضرورت ہے۔ اٹارنی جنرل نے بھی اتک ان کے الزامات کی تصدیق نہیں کی۔صدر ٹرمپ اپنے رویے سے اپنے مخالفین کی تعداد بڑھاتے رہے۔ غیر ملکی تارکین وطن، مسلمان، سیاہ فام باشندے، خواتین، بڑے میڈیا ادارے، اداروں کے سربراہان، سائنسدان، الغرض سب سے ان کی کشمکش جاری اور بڑھتی رہی۔ بے روزگاری، لازمی صحت پروگرام، کرونا وائرس، سفید فام نسل پرستی اور معیشت وغیرہ جیسے امور پر ان کی کارکردگی غیر تسلی بخش رہی۔ وہ ملک میں امن، سکون، برادشت، پرامن بقائے باہمی اور احترام کے بجائے انتشار، نفرت، عدم برداشت، سفید فام نسلی برتری اور مخالفین کی تضحیک کا نمونہ بن کر سامنے ائے۔ امریکی عوام دیکھتے رہے کہ ان کا رہنما ملکی قوانین میں موجود آزادیوں، گنجائشوں اور سقم کا اپنے مفاد کےلئے ناجائز فائدہ اٹھا رہا ہے اور ان کی بدنامی کا باعث بھی بن رہا ہے کئی سابق صدور اور صدارتی امیدوار بھی صدر ٹرمپ کے خلاف اور جو بائیڈن کے حق میں نکل آئے۔ ٹرمپ روایتی ریپبلکنز کو بھی ساتھ نہ رکھ سکے۔ پارٹی کے متعدد ارکان مثلاً سابق سینیٹر جان مکین کی بیوہ سینڈی مکین نے جوبائیڈن کی حمایت کردی۔ سونے پر سہاگہ یہ کہ سابق ریپبلکن صدر جارج بش اور سابق ریپبلکن صدارتی امیدوار مٹ رومنی نے بھی ٹرمپ کی حمایت کرنے سے انکار کردیا۔ مسٹر بائیڈن اور ان کی نائب صدارتی امیدوار کملا ہیریس نے احتیاط کے ساتھ مہم چلائی ، سماجی دوری پر اصرار کیا اور ہمیشہ ماسک پہنے۔ یوں جو بائیڈن کی جیت یقینی ہوگئی۔صدر ٹرمپ کی متلون مزاجی، ہیجان خیزی، خود پسندی و نرگسیت اور متکبرانہ انداز و اطوار کے مقابلے میں جو بائیڈن تمکنت، رواداری اور خوش اطواری کےلئے مشہور ہیں۔ وہ سیاسی درجہ حرارت کو کم کرنے، مرہم بننے، ہمدردی، قومی اتحاد، برداشت اور احترام کی بات کررہے ہیں۔ ٹرمپ کے برعکس وہ خود کریڈٹ لینے کے بجائے دوسروں کو اپنی کامیابی کا کریڈٹ دے رہے ہیں۔ انتخابات میں اپنی پوزیشن مضبوط ہوجانے کے بعد انہوں نے اپنے پہلے خطاب میں کہا کہ “ہم مخالف ہوسکتے ہیں ، لیکن ہم دشمن نہیں ہیں۔ ہم امریکی ہیں۔ ہمیں غصہ، انتقامی جذبے اور سخت بیانات کو چھوڑنا ہوگا۔اگرچہ صدر ٹرمپ جو بائیڈن پر تنقید کرنے کا کوئی موقع ضائع نہیں کرتے لیکن جو بائیڈن نے اپنی تقریر میں ٹرمپ کا واضح ذکر کیا اور نہ ہی انہوں نے ٹرمپ کی طرف سے شکست نہ ماننے کے اعلان پر توجہ دی۔ وہ کہتے ہیں ہم ریپبلکن پارٹی کے ساتھ ”تعاون“ کے لیے مشترکہ بنیاد تلاش کریں گے۔ ہم آغاز ایک ڈیموکریٹ کی حیثیت سے کررہے ہیں لیکن اب امریکی صدر کی حیثیت سے حکومت کریں گے۔ اب دیکھنا یہ ہے کہ کیا نئے صدر کی بیس جنوری کو حلف برداری تک کے دو مہینے خیرسے گزرتے ہیںکیونکہ غیر معتدل مزاج ٹرمپ سے کچھ بھی بعید نہیں۔