پاکستان تحریک اِنصاف کے رہنما جہانگیر ترین کی وطن واپسی اُن کی بیرون ملک روانگی سے زیادہ غیرمتوقع (ڈرامائی) ہے‘ جس سے تحریک انصاف کی قیادت اور کارکنوں میں جوش پیدا ہوا ہے اور سوشل میڈیا پر جہانگیر ترین کی وطن واپسی کا چرچا زوروشور سے ہو رہا ہے تاہم بنیادی سوال یہ ہے کہ جہانگیر ترین کے خلاف منی لانڈرنگ اور مالی بدعنوانیوں جیسے الزامات میں تحقیقات کا سلسلہ جہاں رک گیا تھا کیا وہاں سے آگے بڑھے گا؟ رواں برس منظرعام پر لائی جانے والی شوگر کمیشن رپورٹ میں بتایا گیا تھا کہ ”جہانگیر ترین سمیت حکومتی اور حزبِ اختلاف سے تعلق رکھنے والے کئی سیاستدانوں کی ملکیت شوگر ملز سالہا سال سے دھوکہ دہی کے ذریعے چینی کی قیمت میں فرضی اخراجات دکھا کر اضافہ کرتے ہیں اور یوں ناجائز طریقے سے منافع کمانے کے عمل میں شریک ہیں۔“ کمیشن رپورٹ میں یہ بھی بتایا گیا کہ پاکستان میں کل 88 شوگر ملیں ہیں جو مختلف سیاسی جماعتوں کے قائدین کی ملکیت ہیں اور یہ شوگر ملیں متحد ہو کر کسان اور صارف کا اِستحصال کر رہی ہیں تاہم جہانگیر ترین نے ہمیشہ سے مو¿قف اختیار کیا کہ ’اُن کی شوگر ملوں کا گروپ جے ڈی ڈبلیو کسی بھی طرح کے غیر قانونی کام میں ملوث نہیں۔‘ شوگر کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں رواں برس وفاقی حکومت نے ایف آئی اے‘ ایس ای سی پی‘ ایف بی آر‘ صوبائی حکومتوں اور دیگر اداروں کو ہدایات جاری کی تھیں کہ وہ کمیشن کی رپورٹ کی روشنی میں تحقیقات کریں اور زیادہ سے زیادہ تین ماہ میں رپورٹ پیش کی جائے۔ ایف آئی اے اور دیگر اداروں پر مشتمل مشترکہ تحقیقاتی ٹیم تحقیقات کرتی رہی جس کا محور منی لانڈرنگ اور دھوکہ دہی تھا، جب جہانگیر ترین پاکستان واپس آئے ہیں تو تحقیقاتی ٹیم کو دیا گیا تین ماہ کا وقت تقریباً مکمل ہونے والا ہے تو کیا تحقیقات مکمل ہوں گی اور کیا شوگرملوں کے سیاسی بااثر مالکان کے خلاف مقدمات درج ہوں گے؟عام آدمی کے نکتہ¿ نظر سے پاکستان میں بااثر افراد کو قانون یا قانون نافذ کرنے والے اِداروں اور اِیسی خصوصی تحقیقات کا خوف نہیں ہوتا‘ جنہیں خاص اہداف دینے کے باوجود بھی اگر نتائج برآمد نہیں ہوتے پاکستان میں پہلی مرتبہ شوگر ملوں کے خلاف تحقیقات ہوئیں اور عوام کو جو تفصیلات بتائی گئیں وہ دل ہلا دینی والی ہیں۔ عجیب و غریب صورتحال یہ بھی دیکھنے میں آئی ہے کہ شوگر ملوں کی جانب سے عدالت کے سامنے یہ مو¿قف رکھا گیا کہ کمیشن کو اختیار نہیں تھا کہ وہ تحقیقات کرتا اور اُس نے ایسے ضمنی امور کے بارے میں تحقیقات کی ہیں جن کا کمیشن کو کہا ہی نہیں گیا تھا‘ اِس لئے عدالت مذکورہ کمیشن رپورٹ کو منسوخ کرنے کا حکم جاری کرے لیکن عدالت نے ایسا نہیں کیا تو پھر احتساب میں رکاوٹ کیا ہے اور کہاں ہے جبکہ ”بنیادی نوعیت کا تمام کام“ مکمل ہو چکا ہے۔ جن بے نامی بینک اکاو¿نٹس میں رقومات منتقل ہوئیں۔ ایک کمپنی سے غیر قانونی طور پر دوسری کمپنیوں میں اربوں روپے منتقلی ہوئے۔ واٹس ایپ گروپوں میں کارٹل کے ممبران کی آپسی بات چیت (تبادلہ خیال) سے بھی ثابت ہوا کہ چینی کی قیمتوں میں مصنوعی اضافے اور دھوکہ دہی کی گئی اور اِس سلسلے میں اختیار کیا جانے والا طریقہ¿ کار بھی اظہرمن الشمس ہو چکا ہے تو جمع کئے گئے شواہد کو حتمی شکل کیوں نہیں دی جا رہی اور تحقیقات کے مراحل مکمل کر کے رپورٹ حکومت کو پیش کیوں نہیں کی جاتی جس کی روشنی میں ملزمان کے خلاف قانونی کاروائی (باقاعدہ مقدمات درج کرنے یا نہ کرنے) کا فیصلہ کیا جائے گا۔ عجیب و غریب صورتحال ہے کہ چینی کی قیمت 55 سے 60 روپے سے پرواز کرتے 105 تا 110 روپے فی کلوگرام تک جا پہنچی ہے لیکن منافع خوری کی ’فرد جرم‘ کسی پر عائد نہیں ہوئی! عجیب و غریب تحقیقات اور عجیب و غریب حقائق ہیں کہ سب کچھ معلوم ہونے کے باوجود بھی کسی بھی متعلقہ شخص کو گرفتار نہیں کیا گیا اور نہ ہی چینی کی پرانی قیمت بحال ہو سکی ہے‘ جس سے احتساب کے عمل پر شکوک و شبہات کے سائے پڑتے ہیں اس حوالے سے اقدامات کی ضرورت ہے تاکہ حکومت نے قومی خزانے کو لوٹنے والوں کے خلاف جو مہم نیک نیتی سے شروع کی ہے اس کے نتائج بھی خاطر خواہ سامنے آئیں۔