ربیع الاول کی رنگینیاں

دی سبلائم پشاور اور پاکستان رائٹرز گلڈ پشاور کے اشتراک سے ایک پروگرام پروفیسر ملک ارشد حسین کی اقامت گاہ پر ہوا۔یہ حمد و نعت کی ایک خوبصورت تقریب تھی۔ مشاعرہ اور نعت خوانی کی یہ محفل رات گئے تک سجی رہی ۔ صدارت سعید گیلانی صاحب کی تھی جبکہ نظامت کے فرائض سردار فاروق جان بابر آزادنے سرانجام دیئے۔اردوپشتو ہندکو اور سرائیکی زبانوں میں کلام پڑھے گئے۔وطنِ عزیز کی سلامتی کے لئے دعائیں ہوئیں اور لنگر تقسیم ہوا۔دی سبلائم ان دنوں بہت فعال تنظیم ہے۔ جو آئے دن کوئی نہ کوئی پروگرام منعقد کرتی ہے ۔خاص طور پر پشاور کی ثقافت اور اس کی رسومات اور اس کے محلِ وقوع کی قدامت کے حوالے سے اس کے کارکنان بہت سرگرم ہیں۔ربیع الاول کے اس مہینے میں آنحضرت کی ولادتِ باسعادت کے سلسلے میں یوں تو ملک بھر میں محافل سجتی ہیں۔ایسے میں ہمارا پشاور بھی رنگ ونور سے نہا جاتاہے۔اندرون ِ شہر تو رنگو ں کی برسات ہوتی ہے ۔چوک میں جلسے اور رات کو جلوس برآمد ہوتے ہیں۔ یہ پشاور کی ثقافت کا ایک حصہ ہیں ۔ مسز منزہ سبلائم کی چیئر پرسن ہیں ۔وہ پشاور کو دنیا بھر میں اجاگر کرنے کےلئے سرگرم ہیں ۔شین شوکت نے رائٹرز گلڈ کی جانب سے اس ادارے کے ساتھ تعاون کرکے ربیع الاول کا یہ خوبصورت پروگرام ترتیب دیا۔ کاروانِ حوا تنظیم کی چیئر پرسن بشریٰ فرخ نے اپنی کارکنان خواتین اور شاعرات کے ساتھ اس تقریب میں بھرپور شرکت کی۔دربار شاہِ قبول اولیاءؒ پشاو رمیں بھی نعتیہ مشاعرے کی ایک بھرپورنشست منعقد ہوئی ۔جسٹس ( ر) سید یحییٰ گیلانی نے تقریب کی صدارت کی ۔اس نور پرور محفل میں دانشور اقبال سکندر نے تصوف کے موضوع پر ایک خطبہ بھی پیش کیا۔آستانہ ¿ عالیہ مولوی جی یکہ توت میں تو رنگ و نور کی بہار ہوتی ہے ۔جس کی سرپرستی سجادہ نشین سلطان آغہ فرماتے ہیں۔شہر میں گھروں اور عمارات پر لڑیاں سجا دی جاتی ہیں ۔قمقمے روشن ہو جاتے ہیں۔خان مست کالونی میں ظہیر الدین بابر اور سبطین کا ذکربھی ضروری ہے جو ان دنوں نہ صرف اپنی رہائش گاہ پر میلاد کے پروگرام ترتیب دیتے ہیں بلکہ عاشقانِ رسول کی دعوت پر احباب کے گھر جا کر وہاںبھی ان محافل کا انعقاد کرتے ہیں۔ان کی رہائش گاہ سے بھی میلاد کاجلوس برآمدہوتا ہے ۔دوسری طرف عظیم نیازی کی بزمِ بہار ِ ادب کے جھنڈے تلے سکندر پورہ پشاور میں بھی ایک مشاعرہ منعقد ہوا ۔ جس میں شعراءنے مختلف زبانوں میں نعت کے خوبصورت اشعار سے بھرے گلدستے پیش کئے ۔ نعت خوان بچوں نے ماحول کو مزید خوبصورت بنا دیا۔اس تقریب کی صدارت ڈاکٹر نذیر تبسم نے کی ۔ فرانس کے صدر کے خلاف شدید مذمت کی قرارداد بھی پاس ہوئی ۔علاوہ ازیں ڈاکٹر نور حکیم جیلانی کی تنظیم اسلام فا¶نڈیشن انٹر نیشنل بھی اس مہینے اپنی طرف سے حمد ونعت کاندرانہ پیش کر تی ہے۔یہ محفل کل پاکستان کثیر السانی تقریب ہوتی ہے ۔ جس میں اندرون ملک کے علاوہ باہر ملک سے بھی احباب شرکت فرماتے ہیں ۔اس دوران میں اباسین آرٹس کونسل پشاور میں بھی ایک ایمان افروز پروگرام ہوا ۔ یہ حمد و نعت کا مشاعرہ تھا ۔ جس میں مرد و خواتین نے بھرپور شرکت کی ۔یہاں اردو پشتو اور ہندکو اور سرائیکی شاعری میں گلہائے عقیدت پیش کئے گئے۔اسی دن چونکہ حلقہ ¿ اربابِ ذوق پشاور کا بھی مشاعرہ کا پروگرام تھا ۔مگراحباب کےلئے ایک ہی وقت میں اباسین آرٹس کونسل کو بھی جانا ممکن نہ تھا ۔ اس لئے حلقہ کے دوست اباسین آرٹس کونسل کے مشاعرے میں شرکت کرنے کےلئے نشتر ہا ل پہنچ گئے۔ اس کے علاوہ پشاور میں ان دنوں میلاد کے حوالے سے بھرپور تقاریب کا انعقاد ہو رہاہے۔گھروں میں نشستیں برپا ہو رہی ہیں اور مختلف مقامات پر ہال میں پروگرامات ہورہے ہیں ۔سکول اور کالجوں یونیورسٹیوں میں بھی میلاد کی تقریبات ہو رہی ہیں۔میلاد ہا¶س آباد ہیں جہاں سرکارِ دوجہاں کی ولادت ِ باسعادت کی محبت اور عقیدت کی سرخوشی میں حمد و نعت کی محفلیں منعقد کی جاتی ہیں۔گندھارا ہندکو اکیڈمی پشاور کے زیرِ اہتمام بھی اس حوالے سے نعتیہ مشاعرہ ہو تا ہے ۔جہاں اویس اور سکندر حیات نعتیہ پروگرام کو آگے بڑھانے میں پیش پیش ہوتے ہیں۔سید صابر شاہ صابر بھی ان دنوں پشتو نعتیہ تقاریب کے حوالے سے کافی مصروف رہتے ہیں ۔سٹی میں اور شہر کے باہر پشاور ہی میں اس نوع کی بے شمار تقاریب اس ماہِ مبارک میں منعقد ہوتی ہے ۔ اپنی کوشش کے مطابق ہر مسلمان کی خواہش ہوتی ہے اور وہ اس مہینے کی اہمیت کے پیشِ نظر کوئی نہ کوئی تقریب منعقد کرتے ہیں۔ابھی ربیع الاول میں بہت دن باقی ہیں ۔شہر بھر میں بہت سی تقاریب ہونارہتی ہیں ۔فضلِ منان کے ہاں میلاد کی محفل کا انعقاد ہوا۔ جب ا س مہینے کا چاند طلوع ہوتا ہے ۔ یہ گھرانہ بہت اہتمام کرتاہے ۔ پہلی تاریخ سے یہ گلی لڑیوں سے سج جاتی ہے۔در و دیوار پر بینر لگ جاتے ہیں۔ یہ گلی مہکنے لگتی ہے ۔جس میں یہاں کے نوجوانوں کا جوش و خروش شامل ہوتا ہے۔جن میں فراز رحمن بھی شامل ہے ۔ان سرگرمیوں میں سب سے اہم کردار شہید محی الدین کا ہوتا تھا۔یہی جوش و خروش تھا جب کچھ برس قبل مرحوم اس مہینے خان مست کالونی میں ایک مسجد کی چھت پر سے لڑیاں نیچے لٹکا رہاتھا کہ لڑیاں گیارہ ہزار وولٹیج کی تاروں کو چھوگئیں ۔جس کی وجہ سے وہ جوانِ رعنا بچہ جھلس کر شہید ہو گیا تھا۔