خواتین اور بالخصوص طالبات کو عملی زندگی سے چیلنجز سے نمٹنے میں مدد دینے کے لئے جس ایک چیز کی شدت سے ضرورت محسوس کی جا رہی ہے وہ ’خود اعتمادی‘ ہے اور خوداعتمادی کے حصول کے لئے جہاں علم و شعور (خواندگی) کا اہتمام و انتظام کیا جاتا ہے وہیں حالات کا سامنا کرنے کےلئے ہر وقت ذہنی و جسمانی طور پر تیار رہنا بھی ضروری ہوتا ہے‘ جس کے لئے تربیت کلیدی کردار ادا کرتا ہے۔ بنیادی بات یہ ہے کہ خواتین کو صرف جسمانی طور پر حملہ آوروں ہی سے خطرہ نہیں رہتا بلکہ اُنہیں گھر کے اندر ہو یا گھر کی چاردیواری کے باہر‘ شادی سے پہلے ہو یا شادی کے بعد‘ دوران تعلیم ہو یا گھر گرہستی کے شعبہ جات میں ’اِمتیازی سماجی روئیوں‘ کا سامنا رہتا ہے‘ جن سے ’بہ اِحسن عہدہ برآئ‘ ہونے کے لئے پشاور کی ایک غیرسرکاری (نجی) تنظیم ”زمونگ جوندون (ہماری زندگی)“ نے طالبات کی تربیت کا سلسلہ شروع کیا ہے اور اِسی سلسلے میں ”فارورڈ ماڈل ہائی سکول فار گرلز (سعید آباد)“ میں تربیتی نشست کا اہتمام ہائی کلاس کی طالبات کےلئے کیا گیا۔ ’زمونگ جوندون‘ کی چیف ایگزیکٹو آفیسر (سی اِی او) وفا وزیر بھی اِس موقع پر موجود تھیں جنہوں نے طالبات کے سامنے ’سلیف ڈیفنس‘ کی اہمیت اُجاگر کی جبکہ اِس مقصد کے لئے ’جوڈو کراٹے‘ کی تربیت یافتہ جس معلمہ (انسٹرکٹر) کا انتخاب کیا گیا‘ اُس نے کھیل کا خاص سفید لباس (یونیفارم) پر سکارف سے سر ڈھانپ رکھا تھا۔ ’جوڈو کراٹے‘ بنا ہتھیار حملہ آور ہونے یا کسی حملہ آور سے خود کو بچانے کا طریقہ ہے جو بطور کھیل بھی رائج ہے اور اِسے جسمانی کسرت کے طور پر بھی سیکھا‘ سکھایا اور اِس کی مشق کی جاتی ہے۔ اصطلاحی طور پر جوڈو (Judo) کا مطلب محدود پیمانے اور نرم خو انداز سے حملہ کرنا یا جسمانی حملہ ناکام بنانے کے طریقے کو کہا جاتا ہے جبکہ کراٹے (Karate) سخت گیر انداز میں جواب دینے یعنی اپنے دفاع کے طریقے کو کہا جاتا ہے۔ تکنیکی اعتبار سے عموماً جوڈو کا استعمال انفرادی حملہ آور کی صورت کیا جاتا ہے جبکہ کراٹے نامی طریقے کا استعمال ایک سے زیادہ حملہ آوروں کی صورت میں ہوتا ہے۔ مارشل آرٹ (Martial Art) کہلانے والے اِس ’سلیف ڈیفنس‘ طریقے کی ابتدا پتھر کے زمانے (Epipalaeolithic era) سے ہوئی یعنی ہجری سال کی ابتدا سے بھی سات سے دس ہزار قبل ہوا تھا۔ بنیادی طور پر یہ ایشیائی کھیل ہے جو دنیا کے ہر حصے اور خطے میں کھیلا جاتا ہے اور رواں برس (دوہزاربیس) میں اِسے گرمائی کھیلوں کے عالمی مقابلوں (Summer Olympics) میں بھی شامل کیا گیا تاہم اِس کے قواعد و شمولیت کو کشتی (ریسلنگ) کی طرح رکھا گیا ہے۔ کلاس روم میں سوال وجواب کا آغاز ہوا تو ایک لڑکی کے سوال پر معلمہ نے طالبات سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ ”لڑکیاں کسی سے کم نہیںاور جسمانی لحاظ سے یکساں مضبوط (strong) ہیں بلکہ جو کچھ لڑکیاں کر سکتی ہیں وہ لڑکے نہیں کر سکتے۔ جوڈو کراٹے کی تربیت یافتہ بیک وقت تین حملہ آوروں کا مقابلہ اور اپنا کامیابی سے دفاع کر سکتا یا کر سکتی ہے۔“ یہ پیغام بہت ہی واضح تھا لیکن معلمہ کی جانب سے جس ایک نکتے پر بار بار زور دیا گیا وہ یہ تھا کہ اپنی آنکھیں اور کان کھلے رکھنے ہیں کہ اگر کہیں ایسی صورتحال پیش آئے کہ کوئی پیچھا کر رہا ہو تو اُس کا حملہ صرف اُسی صورت ناکام بنایا جا سکتا ہے جبکہ گردوپیش پر نظریں جمی ہوں اور معلوم ہو کہ سامنے اور پیٹھ پیچھے کیا ہو رہا ہے۔ طالبات کو اِس قسم کی تربیت چند منٹوں کے زبانی کلامی خطاب (لیکچر) سے نہیں دی جا سکتی اور نہ ہی اِس سے اُن کا طرزعمل اِس حد تک بیدار ہوگا کہ وہ ہر وقت خود کو خطرے میں محسوس کریں اور اپنے گردوپیش پر اِس تصور کو ذہن رکھتے ہوئے توجہ مرکوز رکھیں کہ کوئی اُن پر کسی بھی وقت حملہ آور ہو کر نقصان پہنچا سکتا ہے۔ خواتین کے خلاف جرائم کے واقعات میں ہرقسم کا تشدد شامل ہوتا ہے اور اکثر واقعات میں حملہ آور ’غفلت‘ کا فائدہ اُٹھاتے ہوئے وار کرتا ہے جیسا کہ تیزاب پھینکنے کے واقعات میں ہوتا ہے۔ اِسی طرح اجتماعی جنسی زیادتی کے واقعات میں بھی خواتین کو بیک وقت ایک سے زیادہ حملہ آوروں کا سامنا کرنا پڑتا ہے اور ایسی صورت میں اُس کی دفاعی حکمت عملی کا پہلا عنصر یہ ہوتا ہے کہ وہ خوف کا شکار نہ ہو کیونکہ خوف کے باعث اُس کی اپنے دفاع میں جسمانی طاقت اور ردعمل ظاہر کرنے کی صلاحیت کمزور پڑ جاتی ہے۔ نصابی و ہم نصابی سرگرمیوں کے مجموعے پر مشتمل نصاب مرتب کرنے والے ہمارے قومی و صوبائی فیصلہ سازوں کو ’سیلف ڈیفنس‘ کی اہمیت و ضرورت کا احساس کرنا ہوگا اور طالبات کی جسمانی تربیت کو ابتدائی درجات کے تعلیمی معمولات کا حصہ بنانا ہوگا کیونکہ کھیل کے ساتھ یہ ”صحت مند“ زندگی بسر کرنے کا طریقہ بھی ہے۔ عجب ہے کہ خیبرپختونخوا کے 90فیصد سرکاری تعلیمی اداروں میں کھیل کے میدان نہیں البتہ دیہی علاقے کے طلبہ خوش قسمت ہوتے ہیں کہ اُنہیں قبرستانوں یا گلی کوچوں کے گردآلود ماحول میں کھیل کود کا موقع کسی نہ کسی صورت میسر آ جاتا ہے جبکہ خیبرپختونخوا کے نجی تعلیمی اداروں میں کھیل کے میدانوں کا تناسب سرکاری سکولوں سے بھی زیادہ خراب ہے تو ایسی صورت میں بھاری بھرکم سکول بیگز (بستے) اُٹھائے طلبہ و طالبات ’سلیف ڈیفنس‘ کس طرح سیکھیں گے اورکس طرح ہمہ وقت بیداری کی حالت میں اپنے گردوپیش میں خطرات سے آگاہ رہیں گے یہ سب خواب سے حقیقت بنانے کےلئے زبانی کلامی تربیت کی نہیں بلکہ عملی اقدامات و انتظام کی ضرورت ہے کیونکہ سلیف ڈیفنس کا اطلاق اُن صورتوں میں بھی ہوتا ہے جس میں حملہ آور جسمانی نہیں بلکہ ذہنی و نفسیاتی اور سائبر وسیلوں کا استعمال کرتے ہوئے بھی حملہ آور ہوتا ہے۔