اقبال کے اشعار

 کسی سے محبت ہو تو سمجھ بوجھ بھی ہونی چاہئے۔ کیونکہ بعض اوقات محبت کے اظہار کےلئے ہم تعظیم بھول جاتے ہیں۔ اس بات کی یاداشت ہمیں رہتی نہیںکہ محبت کااظہار کیسے کرنا ہے ۔ اقبال کے ساتھ سب محبت کرتے ہیں۔ مگر اس محبت کے عالم میں ہم سے بہت سی کوتاہیاں ہو جاتی ہیں۔ خاص طور پر ہم اقبال کے اشعار کے معاملے میں چھان پھٹک سے کام ہی نہیں لیتے ۔ یہ نہیں دیکھتے کہ کیا واقعی یہ علامہ کا شعر ہے بھی کہ نہیں۔کیااس کا میٹر، ترنم، میلوڈی، ردھم، موسیقیت ، تقطیع یاوزن برابر ہے ۔ان سات چیزوں کے ساتھ عام پبلک کا کوئی تعلق نہیں ۔ علامہ کے یومِ پیدائش پر دوستوں عزیزوںنے اقبال کے اشعار وٹس ایپ کئے ۔مگر افسوس شعر کو پڑھنا تو دور کی بات شعر کی املا کو دور ہی سے ایک اچٹتی ہوئی نگاہ سے دیکھ کر پتا لگ جاتا ہے کہ یہ اقبال کا شعر نہیں ۔ اصل میں ہر بڑے شاعر کا اپنا ایک سٹائل ہو تاہے جو پہچانا جاتا ہے۔جس کو خالص ادبی زبان میں اسلوب کہتے ہیں ۔جب شاعر کا نام ساتھ نہ لکھا ہو اور آپ اس شعر کو زندگی میں پہلی بار پڑ ھ رہے ہوںیاسن رہے ہوں۔ اس پر آپ پہچان لیں کہ یہ تو فلاں شاعر کا شعرلگتا ہے ۔اس کو اسلوب کہتے ہیں۔ہر شاعر کا اپنااسلوب نہیں ہوتا۔ مگر دوسری طرف خاص اقبال کے سٹائل میں لکھے گئے بعض اشعار صاف دھوکا دے جاتے ہیں ۔ اس طرح کے بیشتر اشعار موجود ہیں جو اقبال کے نہیں۔ کسی شعر کا یاد کرلینا بھی ذوق کی وجہ سے ہے ۔ہر کسی کو شعر بھی یاد نہیں ہوتا۔پھر کسی کو شعر یاد ہی نہیں رہتے۔یہ ذوق نہ ہونے کی علامت ہے ۔ذوق کیا ہے چلتے چلتے اس پر بھی تھوڑی بات ہو جائے ۔ ایک شوق ہے۔ شوق کی وجہ سے بعض فن سیکھے جاسکتے ہیں۔ کرکٹ یا کوئی بھی گیم ، کوئی ہنر یہ سب ہر آدمی سیکھ سکتا ہے ۔اس کا تعلق شوق سے ہے۔مگر بعض چیزیں سیکھنے کی کوشش کرنے کے باوجود بھی سیکھی نہیں جاسکتیں۔ ان میں شاعری ، اچھی آواز کی گلوکاری، مصوری ، رقص ، مجسمہ سازی وغیرہ ہیں۔ یہ چیزیں یا تو پہلے سے آتی ہوتی ہیں ۔ یعنی بچپن سے کہہ لیں یا اچانک کسی بھی عمر میں انسان کے اندر پوری کی پوری اور بغیر کسی استاد کے آن موجود ہو تی ہیں ۔ ان کو فائن آرٹ یا فنونِ لطیفہ بھی کہتے ہیں ۔جبکہ ہنر وغیرہ جن کا تعلق شوق سے ہے انھیں فنونِ مفیدہ کہا جاتا ہے۔مختصر یہ کہ شوق کے پیچھے آپ خود چل کر جاتے ہیں اور اس کو ٹچ کرتے ہیں۔جبکہ ذوق خود آکر آپ کو ٹچ کرچکاہوتا ہے۔اسی لئے ذوق کو مَس بھی کہتے ہیں اور ٹچ بھی کہتے ہیں۔مثلاً فلاں آدمی میں شاعری کا ٹچ موجود ہے۔ یا فلاں شخص میں مصوری کا ذوق ہے۔علامہ اقبال کی شاعری کے علاوہ بہت شاعروں کے ساتھ یہ ٹریجیڈی ہوئی ہے کہ ان شاعروں کے اشعار کو غلط طور پر پیش کیاگیا ہے ۔پھر ایسا ویسا غلط۔ اتنا غلط کہ توڑ مروڑ کر بھی پیش کیا گیا ہے۔پھر بالائے ستم یہ کہ اس میں اقبال کا تخلص نکال کر اپنا نام بھر دیتے ہیں۔ یا کوئی ناکارہ شعر جس میں وزن تک نہ ہو اور کوئی دانش کی بات بھی نہ ہو اس میں انجینئر نگ کر کے اقبال کا نام ڈال دیتے ہیں ۔وہ سمجھتے ہیں کہ ہم اس سے اقبال کے ہزاروں اشعار میں اور بھی اضافہ کر دیں گے۔مگر ایسا ہونہیں پاتا۔ کیونکہ ” ہم سے دیوانے بھی دنیا کی خبر رکھتے ہیں۔تاڑنے والے قیامت کی نظر رکھتے ہیں۔“ جو کوئی ایسا کرے اس سے پوچھ لیں کہ اقبال کا یہ شعر ان کی کس کتاب میں یا کس نظم میں ہے تو سارا پول کھل جاتاہے ۔کیونکہ ان صاحب کے پاس سوال کا جواب نہیںہوتا۔ اس کا صاف مطلب یہ ہوا کہ یہ شوق کی بات تو ہے مگر ذوق کا نتیجہ نہیںہے۔