دنیا یہ منظر شایدپہلی دفعہ دیکھ رہی ہے کہ امریکہ جیسے ترقی یافتہ اور جمہوری روایات پر یقین رکھنے والے ملک کا چار سال تک صدر رہنے والا شخص بھی امریکہ کے انتخابی نظام جسکی شفافیت کی چار وانگ عالم میں شہرت ہے پر اعتراضات اٹھاتے ہوئے انتخابی نتائج کو تسلیم کرنے سے انکار کرے گا۔ دلچسپ بات یہ ہے کہ سابق امریکی صدر ٹرمپ نے صرف انتخابی نتائج ہی کو رد نہیں کیا بلکہ حیرن کن طورپر وائٹ ہاوس خالی کرنے سے بھی انکار کر دیا ہے حالانکہ ماضی میں امریکی صدورکی یہ روایات رہی ہےں کہ وہ عہدہ صدارت کی میعاد پوری ہونے پر خوشی خوشی وائٹ ہاوس خالی کرتے رہے ہیں اسی طرح امریکہ میں ہر ہارنے امیدوار کی جانب سے جیتنے والے امیدوار کونہ صرف مبارک باد دینے کی مستحکم سیاسی روایت قائم ہے بلکہ ہارنے والے والا امیدوار جیتنے والے کےلئے نیک خواہشات کا اظہار بھی کرتا ہے لیکن ٹرمپ جو اپنے عہدہ صدارت کے دوران اپنے بیانات اور طرز عمل سے مسلسل تنقید کی زد میں رہے اپنی ہٹ دھرمی اور ضد پر قائم رہتے ہوئے امریکہ کے پورے انتخابی نظام اور جمہوری روایات کو بھی بازیچہ اطفال بنا دیا ہے۔ بہر حال اس بحث سے قطع نظر کہ امریکہ کے حالیہ انتخابی نتائج کس حد تک متنازعہ رہے ہیں اور آیا ان نتائج اور خاص کر ٹرمپ کی شکست اور ان کا شکست قبول نہ کرنے کے اعلان سے امریکی جمہوریت کا چہرہ کتنا داغدار ہوا ہے یہ نتائج ڈیموکریٹک امید وار جوبائڈن کی فتح کی صورت میں تیسری دنیا خاص کر مسلمان ممالک کے لئے بظاہر تازہ ہوا کا جھونکا ثابت ہوئے ہیں۔ دراصل صدر ٹرمپ نے اپنی چار سالہ میعادمیں مسلمانوں اور تیسری دنیا کے خلاف جو لب و لہجہ اپنائے رکھا اور اپنے بعض فیصلوں جن میں غیر ملکی تارکین وطن پرزندگی تنگ کرتے ہوئے امیگریشن کے قوانیں کو سخت بنانے کے علاوہ اسرائیل میں امریکی سفارت خانہ تل ابیب سے یروشلم منتقل کرنا، متحد عرب عمارات،سوڈان، بحرین اور کوسووجیسے مسلمان ممالک پر دباﺅ ڈال کر ان ممالک سے اسرائیل کو تسلیم کرانا، چین کے خلاف غیر ضروری اقتصادی جنگ چھیڑ کر ہانگ کانگ ،تبت اور سنکیانگ میں چین کے خلاف جذ بات ابھارنا ،پاکستان جیسے دیرینہ دوست کی ناراضگی کے باوجود بھارت کے غیر ضروری پذیرائی، ایران کے ساتھ کئے جانے والے نیوکلیر معاہدے سے دستبرداری، شام ، یمن اور لیبیا کو خانہ جنگی میں جھونک کر ان ممالک میں ہونے والی خون ریزی سے بے اعتنا ئی، افغانستان میں امریکی افواج کے محفوظ انخلاءکے لئے طالبان سے معاہدے اور بعد کے حالات سے چشم پوشی صدر ٹرمپ کے ایسے اقدامات ہیں جنہوں نے دنیا کو پہلے سے زیادہ غیر محفوظ بنا دیا ہے۔ نو منتخب امریکی صدر جو بائڈن جو اپنی انتخابی مہم کے دوران ایک مثبت اور متوازی سوچ کے ساتھ سامنے آئے ہےںکی کامیابی کے بعد امریکیوں کے ساتھ ساتھ باقی دنیا نے بھی یقیناً سکھ کا سانس لیا ہے لیکن اب دیکھنا یہ ہے کہ جو بائڈن اپنے انتخابی وعدوں کو عملی جامہ پہنانے کے ساتھ ساتھ صدر ٹرمپ کے پھیلائے ہوئے گند کو کس حد تک صاف کرنے پر توجہ دیتے ہیں ۔ امریکی تاریخ میں ریپبلکن اور ڈیموکریٹکس میں امریکی مفادات کے تناظر میں باقی دنیا کو جوتے کے نوک پر رکھنے اور عالمی امن کو داﺅ پر لگانے کے حوالے سے کوئی خاص فرق روا نہیں رکھا گیا لیکن کم از کم موجودہ حالات کے تناظر میں یہ بات یقینی ہے کہ جو بائڈن ڈونالڈ ٹرمپ کی نسبت عالمی امن کے لئے کم تر خطرہ ثابت ہونگے یا شاید اگر وہ زیادہ وسعت قلبی کا مظاہرہ کریں تو وہ دنیا کو امن وآشتی کا مرکز بنانے میں بھی کردار ادا کر سکتے ہیں ۔
صدر ٹرمپ چین کے ساتھ غیر ضروری کھینچا تانی کے ذریعے دنیا کو ایک پھر سرد جنگ کے جہنم میں جھونکنے کی جس راہ پر چل پڑے تھے اور اس مقصد کے لئے چین کا گھیرا ﺅ کرنے کے غرض سے بھارت، آسٹریلیا اور جاپان کے ساتھ مل کر چین مخالف نیا اتحاد بنانے کے جس راستے پر گامزن تھے اس نے اس پورے خطے کو ایک خطر ناک آتش فشاں میں تبدیل کر دیا تھا۔ جو بائڈن کی کامیابی کے حوالے سے یہ بات بھی پیش نظر رہنی چاہئے کہ انھوں نے اپنی انتخابی مہم کے دوران امریکیوں کو تقسیم کرنے کی بجائے انہیں متحد رکھنے کا نعرہ دیا جس کا اکثر امریکی ووٹرز نے انہیں ووٹ دے کر خیر مقدم کیا ہے۔ انکی کامیابی کے حوالے سے یہ بات بھی بلا شک و شبہ کہی جا سکتی ہے کہ ان کی اس کامیابی میں سیاہ فام ووٹرز کے ساتھ ساتھ ایشیائی نژاد امریکیوںنے بھی اہم کردار اداکیا ہے یہی وجہ ہے کہ انھوں نے اپنی کامیابی کے بعد اپنے پہلے بیان میں اس عزم کا اظہار کیا ہے کہ وہ بلا تفریق تمام امریکیوں کے صدر ہونگے۔ جو بائیڈن کے انتخاب کو پاکستان کے نقطہ نظر سے بھی خوش آئند قرار دیا جا رہا ہے کیونکہ وہ اپنی انتخابی مہم میں پاک بھارت تناﺅ خاص کر مقبوضہ کشمیر میں بھارتی مظالم اور لاک ڈاﺅن پر تشویش کا اظہار کر چکے ہیں۔ اسی طرح صدر باراک اوبامہ کے ساتھ بطور نائب صدر ا نہیں چونکہ پاکستان کے ساتھ تعلقات بہتر بنانے کے صلے میں ہلال پاکستان کے اعلیٰ سول اعزاز سے بھی نوازا جا چکا ہے اسلئے عام تاثر یہ ہے کہ انکے بر سر اقتدار آنے سے پاک امریکہ تعلقات میں پائی جانے والی بد اعتمادی کے خاتمے میں بھی مدد ملنے کا امکان ہے۔ اسی طرح جو بائڈن چونکہ افغان معاملات میں پاکستان کے کلیدی کردار اور اہمیت سے بھی بخوبی واقف ہیں اسلئے توقع ہے کہ وہ افغانستان سے متعلق کوئی بھی بڑا فیصلہ کرنے سے پہلے پاکستان کو اعتماد میں لینا ضروری خیال کریں گے لہٰذا اس پس منظر کے ساتھ جو بائڈن کا بطور صدر انتخاب امریکی عوام کے ساتھ ساتھ مسلمانوں بالخصوص پاکستان کے لئے ایک خوشگوار تجربہ ثابت ہوگا۔