حفظ ماتقدم

پاکستان کے میدانی اور پہاڑی علاقوں میں موسم سرما کی شدت اور کورونا وبا کی دوسری لہر سے متعلق اعدادوشمار پر نظریں جمائے ”نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر (این سی او سی) نے تجویز کیا ہے کہ چھوٹے بڑے اجتماعات کے انعقاد پر ’مکمل پابندی‘ کی جائے اور تعلیمی اداروں سمیت سینما گھروں‘ تھیٹرز اور عبادت گاہوں بشمول مزارات کو بھی چند ماہ کےلئے بند کر دیا جائے۔ وجہ یہ ہے کہ چوبیس گھنٹوں کے دوران پاکستان میں سترہ سو سے زیادہ نئے متاثرین سامنے آئے ہیں جبکہ اسی دورانیے میں وائرس سے متاثرہ پچیس افراد کی ہلاکت تشویشناک ہے کیونکہ ہسپتالوں میں موجود علاج کی سہولت محدود ہے اور ہسپتال آہستہ آہستہ بھرنا شروع ہو گئے ہیں۔ وفاقی ادارے کی جانب سے کہا گیا ہے کہ ”جولائی سے رواں ماہ (نومبر دوہزاربیس) کے دوران شرح اموات میں بتدریج اضافہ ہوا ہے۔ اِس سلسلے میں وقافی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے ٹوئٹر پر جاری پیغام (گیارہ نومبر) میں کہا کہ رواں سال اکتوبر کے وسط سے اب تک پاکستان میں کووڈ کے متاثرین کی تعداد میں تین گنا اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور ممکنہ بڑے نقصان سے بچنے کےلئے حفظ ماتقدم کے طور پر وضع کردہ احکامات (SOPs) کی پابندی ضروری ہے۔ اس سے قبل بارہ اکتوبر اور تین نومبر کو بھی بڑے اجتماعات پر پابندی عائد کرنے کے حوالے سے انہوں نے اِسی قسم کا پیغام جاری کیا تھا اور توجہ دلائی تھی کہ کورونا سے نمٹنے کے لئے تمام طبقات کو یکجا ہو کر قواعد پر عمل لازمی قرار دینا ہو گا۔خیبرپختونخوا کے نکتہ¿ نظر سے ’این سی او سی‘ کی یہ تجویز کہ تعلیمی اداروں میں بڑھتے ہوئے کورونا کیسز لائق توجہ ہیں بطور خاص غورطلب ہے کہ سردیوں کے چھٹیوں کو جلدی اور طویل کیا جائے جبکہ سال کا یہی عرصہ سالانہ امتحانات اور نئے داخلوں کا ہوتا ہے جیسا کہ خیبرپختونخوا کے کیڈٹ کالجوں میں بھی داخلے کے مراحل نومبر اور دسمبر میں مکمل ہوں گے اور میڈیکل اینڈ ڈینٹل کالجوں کے لئے امتحان (MDCAT) کا ملک گیر انعقاد پندرہ نومبر کے روز ہونا طے ہے۔ کیا تعلیمی ادارے فوری طور پر بند ہوں گے؟ اِس سلسلے میں وفاقی وزارت تعلیم نے مختلف صوبوں کے متعلقہ وزرا سے مشاورت کے لئے اجلاس سولہ نومبر کو طلب کر رکھا ہے جس میں کورونا وبا کی ملک گیر صورتحال بالخصوص تعلیمی اداروں کے لئے موسم سرما کی تعطیلات سے متعلق لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔کورونا وبا سے زیادہ مہلک عوام و خواص کے رویئے ہیں جو اِس عالمی وبا کو ایک مرتبہ پھر پاکستان کے لئے خطرہ نہیں سمجھ رہے۔ اگر ہر خاص و عام تعاون کرے اور کورونا وبا سے نمٹنے کےلئے وضع کردہ ہدایات پر عمل کرے تو تعلیمی اداروں سمیت شادی ہالز بند کرنے کی کوئی ضرورت نہیں اور نہ ہی عبادت گاہوں سے متعلق بنائے گئے حفاظتی اقدامات پر نظرثانی کی ضرورت رہتی ہے لیکن مسئلہ یہ ہے کہ معلم ہوں یا طالب علم ‘ گاہگ ہوں یا دکاندار‘ راہ گیر ہوں یا سوار ہر کوئی اپنی اپنی جگہ پر کورونا وبا سے متعلق حفاظتی انتظامات کو خاطرخواہ اہمیت نہیں دے رہا۔ یہی وجہ ہے کہ وفاقی حکومت کی جانب سے تازہ ترین تجاویز جاری کی گئی ہیں جن کے مطابق ریستورانٹس اور کھانے پینے کے مقامات رات دس بجے تک بند کئے جائیں۔ سینما‘ تھیٹر‘ مذہبی مقامات اُور درگاہیں بھی ایک وقت کے بعد بند ہونی چاہئیں اور اِس سلسلے میں بازاروں (تجارتی مراکز) کو سرشام بند کرنے کی تجویز بھی دی گئی ہے۔ یہ تمام تر تجاویز صوبوں کے مختلف وزرا اور متعلقہ محکموں کو ارسال کی گئی ہیں جس پر صوبے اپنی تجاویز بھی پیش کریں گے اور پھر ان تجاویز پر حتمی فیصلہ قومی رابطہ کمیٹی اور وفاقی کابینہ کی منظوری کے بعد ہو گا اور آئندہ دو ہفتوں میں کوئی متفقہ قومی فیصلہ سامنے آنے کی اُمید ہے ذہن نشین رہے کہ عالمی سطح پر کورونا وائرس کے باعث ہلاک ہونے والوں کی تعداد ساڑھے بارہ لاکھ سے تجاوز کر چکی ہیں جن میں سب سے زیادہ یعنی قریب دو لاکھ چالیس ہزار افراد امریکہ میں ہلاک ہو چکے ہیں! پاکستان کے فیصلہ سازوں اور عوام کو سمجھنا ہوگا کہ وہ عالمی وبا جس سے متاثرہ افراد کی تعداد ایک کروڑ سے زیادہ ہے اور دنیا کے ترقی یافتہ ممالک جن کی معیشت مضبوط ہے اور جن کے پاس علاج معالجے کی بہترین سہولیات موجود ہیں اگر وہ بھی کورونا وبا سے عاجز اور پریشان ہیں تو پاکستان جیسے کم وسائل رکھنے والے ملک میں کورونا سے خود محفوظ رہنے اور دوسروں کو بچانے پر توجہ دینا ہی دانشمندانہ اور حکیمانہ اقدام ہوگا کیونکہ کورونا وبا سے ہرممکنہ احتیاط کے سوا بچاو¿ کی دوسری کوئی صورت نہیں۔