خیبر پختونخوا میں سردی کی شدت میں اضافے کے ساتھ سیاسی درجہ حرارت میں بھی اضافہ ہو رہا ہے۔ صوبے کے سیاسی درجہ حرارت میں ہونے والا یہ اضافہ نہ صرف اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے سامنے آرہا ہے بلکہ اس دوڑ میں حکمران جماعت نے بھی پیچھے رہنا گوارا نہیں کیا۔ خیبر پختون خوا میں شروع ہونے والی اس سیاسی ہلچل کا آغاز جماعت اسلامی کے پچھلے دنوںباجوڑ اور بونیرمیں دو بڑے بڑے جلسہ ہائے عام کے انعقاد سے ہوا ہے جسکے بعد پی ٹی آئی نے مینگورہ کے مشہور گراسی گراﺅنڈ میں اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرتے ہوئے جہاں اپوزیشن کو یہ پیغام دیا ہے کہ اگر وہ ملک میں حکومت مخالف بڑے بڑے سیاسی جلسے کر سکتی ہے تو پی ٹی آئی میں بھی اتنا دم خم ہے کہ وہ بھی اپنے کارکنان اور بہی خواہوں کو متحرک کرکے بڑا پاور شو کرنے کی صلا حیت اب بھی رکھتی ہے۔ پی ٹی آئی کا جلسہ اس حوالے سے بھی مبصرین کی توجہ کا مرکز بنا ہوا تھا کہ یہ جلسہ وزیر اعلیٰ خیبر پختون خوا محمود خان کے آبائی ضلع سوات کے صدر مقام پر منعقد ہو رہا تھا عوام کی ایک بڑی تعداد نے اس جلسہ عام میں شرکت کرکے بعض مبصرین کی اس رائے کو غلط ثابت کر دیا ہے کہ موجودہ مہنگائی کے طوفان میں حکمران جماعت کےلئے وزیر اعلیٰ کے آبائی علاقے میں ایک بڑا جلسہ کرنا ایک مشکل ٹاسک ہوگا لیکن جس بڑے پیمانے پر اس جلسہ عام میں عام لوگ شریک ہوئے اس نے ان مفروضوں کو غلط ثابت کر دیا ہے کہ موجودہ حالات میں عام لوگ پی ٹی آئی کے جلسوں میں شرکت نہیں کریں گے ۔ یاد رہے کہ اس جلسہ عام کی عوامی نقطہ نظر سے ایک خاص بات اس میں حکومت کی جانب سے صوبے کے تمام افراد کے لئے مرحلہ وار سالانہ دس لاکھ روپے تک صحت کی مفت سہولیات کے فراہمی کا اعلان کرناتھاجو ملک بھر میں ہیلتھ انشورنس کا اپنی نوعیت کا پہلا اور انوکھا فیصلہ ہے جس پر اگر حقیقی معنوں میں عمل در آمد ہوا تو اس سے عام لوگوں کی صحت اور اس ضمن میں ان کو درپیش مشکلات کے حوالے سے ایک بڑی تبدیلی کی توقع کی جا سکتی ہے۔ سوات میں حکمران پی ٹی آئی کے بعد 13 نومبر کو مسلم لیگ (ن) بھی اسی میدان میں اپنی سیاسی قوت کا مظاہرہ کرنے جارہی ہے جہاں 6 نومبر کو پی ٹی آئی اپنی طاقت کا مظاہرہ کر چکی ہے اور یہی وہ میدان ہے جہاں 22 نومبر کو جماعت اسلامی نے اپنی سیاسی طاقت کا مظاہرہ کرنے کا اعلان کیا ہے۔ خیبر پختون خوا میں جاری سیاسی ہلے گلے میں اپوزیشن جماعتوں کی جانب سے ایک بڑا بھاری پتھر22 نومبر کو پشاور میں پی ڈی ایم کے پلیٹ فارم میں ایک بڑے جلسہ عام کی صورت میں اٹھایا جانا باقی ہے جس کے لئے اگر ایک طرف پی ڈی ایم میں شامل جماعتیں کافی پر عزم اور پر جوش نظر آرہی ہیں تو دوسری جانب ان جماعتوںبالخصوص خیبرپختوں خوا میں سیا سی وزن رکھنے کی دعوے داراپوزیشن کی دو جماعتوں اے این پی اور جمعیت(ف) میں 22 نومبر کے جلسہ عام کی میزبانی کےلئے رسہ کشی بھی عروج پر ہے۔ جبکہ تیسری جانب حکومت کورونا کے بڑھتے ہوئے کیسز کے پیش نظر 22 نومبر کا جلسہ منسوخ کرانے کےلئے اپوزیشن جماعتوں پر دباﺅبھی ڈال رہی ہے لیکن اپوزیشن کے لئے حکومت کی اپیل پر کان دھرنا مشکل نظر آتا ہے۔ پی ڈی ایم جلسہ عام کی میز بانی کا مسئلہ جمعیت (ف) اور اے این پی دونوں کی مشترکہ میزبانی میں منعقد کرنے کے فیصلے کے ذریعے عارضی طور پر تو حل کر لیاگیاہے لیکن اے این پی اور جمعیت (ف) کے درمیان موجودہ سیاسی تناﺅ اور پچھلے دنوں اے این پی کے صوبائی صدر ایمل ولی خان کی جانب سے مولانا فضل الرحمان کے خلاف استعمال کئے جانے والے لب و لہجے اور اس پر جمعیت (ف) کے سخت کے رد عمل کے تناظر میں ان دونوں جماعتوں کی مشترکہ میزبانی میں ہونے والے 22نومبر کے جلسہ عام کے بارے میں ان خدشات کو رد نہیں کیا جا سکتا ہے کہ ان دونوں جماعتوں کی کھینچا تانی اور صوبے میںخود کو ایک بڑی سیاسی قوت کے طور پر منوانے کے زعم میں دونوں جماعتوں میںجو سرد جنگ چھڑی ہوئی ہے اس کا اثر پی ڈی ایم کے جلسہ عام پر بھی پڑ سکتا ہے۔تاہم اس میں شک نہیں کہ پی ڈی ایم نے سیاسی میدان کو ایک بار پھر گرما دیا ہے اور عوام کی بڑی تعداد جلسوں میں شرکت کے ذریعے ان کے موقف کو سن رہی ہے اس لئے یہ کہنا غلط نہیں ہوگا کہ حزب اختلاف اور حکومت دونوں میں برابری کا مقابلہ ہے‘ دریں اثناءجماعت اسلامی جو پہلی دفعہ پوری یکسوئی کے ساتھ سیاسی میدان میں تنہا پرواز پر نکل کھڑی ہوئی ہے باجوڑ کے بعد بونیر میں ایک بڑا سیاسی اجتماع منعقد کرکے اگر ایک طرف صوبے کی سیاست میں تیزی لانے کی باعث بنی ہے تو دوسری طرف وہ ملاکنڈ ڈویژن میں 2018 کے عام انتخابات میں کھوئی ہوئی اپنی سیاسی ساکھ کی بحالی کےلئے انتہائی منظم انداز میں آگے بڑھ رہی ہے۔