ہمارے اقتدار کے سیاست دان حالانکہ انگریزی نہیں جانتے مگر اس کے باوجود وہ انگریزی کو اپنے دفتر سے نکال نہیں سکتے۔کیونکہ کے ان کی کمانڈ تلے جو افسران ہیں وہ انگریزی دان ہیں ۔ پھراصل سکہ تو اسی افسر شاہی کا چلتا ہے ۔جو کہتے ہیں وہی پورا ہوتا ہے ۔وزیروں مشیروں کے کانوں کان چھپ چھپا کر جیسا فرمان جاری کرتے ہیںویسا ہی پایہ ¿ تکمیل کو پہنچتا ہے۔تنظیمیں انگریز ی کے خلاف بول بول کر اپنی گویائی سلب کروا چکی ہیں۔پھر خدا لگتی بات یہ ہے کہ اردو تو چھوڑ انگریزی پڑھ کر بھی انگریزی بولتے ہوئے ہمارے بھائی بند بے روزگار گھوم رہے ہیں۔ڈگریاں ہاتھوں میں ہیں اور بیروزگاری کی پرچی بھی گلے میں لٹکی ہے ۔مگر ان کی کوئی شنوائی نہیں ہوتی ۔ تھوک کا حساب ہے اور ہمارے ڈگری ہولڈر ہیں ۔جوتیاں چٹخاتے پھرتے ہیں ۔ بلکہ ان کی جوتیاں گِھس گئی ہیں ۔مگر ان کو نوکری کا کوئی پروانہ ہاتھ نہیں لگتا ۔ الٹا وہ اس پرائی آگ میں اور گمنام آگ میں پروانوں کی طرح جلے جاتے ہیں۔اپنی عمر ضائع کر رہے ہیں اوور ایج ہو رہے ہیں۔مگر نوکری کاکہیں نام و نشان تک نہیں ۔ایسے میں کسی حقدار کو اس کا حق ملنا تو ہوا مشکل ۔جو لوگ کم تعلیم حاصل کر کے بڑی آسامیوں پر تعینات ہو رہے ہیں وہ اپنے اس نظام کو درست بھی تو نہیں کر سکتے ۔ اگر سٹیج پر انگریزی بولتے ہوئے زبان لڑکھڑا جائے تو پھر کیا ضرورت ہے انگلش بولنے کی ۔کیوں نہ اپنی قومی زبان میں تقریر کی جائے ۔کیونکہ نیچے حاضرینِ جلسہ میں انگریز بھی تو نہیں بیٹھے ہوئے ۔ پھر اگر سامعین و ناظرین آپ کو دیکھ رہے ہیں اور سن رہے ہیں تو ان میں سے بعض کو تو اپنی مادری زبان کے علاوہ قومی زبان بھی تو درست نہیں آتی۔ہمارے ہاں انگلش کا رواج اب بھی ہے اور بھرپور ہے ۔حالانکہ ہمارے ہاں سے ہمارے حاکم جو انگریزی زبان بولتے تھے ترہتر سال پہلے نکل کر چلے گئے۔ مگر انھوں نے کچھ عرصہ جو حکومت کی تواپنی بنیادیں اتنی مضبوط کرلی تھیں کہ اب ان کے جانے کے بعد بھی ہم اگرچہ کہ ان کی غلامی سے نکل آئے مگر ہم اب بھی ان کے ذہنی طور پر غلام ضرور ہیں۔ان کی قید نہ رہی مگر ان کی پیروی اب تلک جاری ہے ۔ انگریزوں کو تو نکال باہر کیا مگر انگریزی کو باوجود کوشش کے ہم ابھی تک اپنے دیس سے نکال نہیں پائے۔ آئین ِ پاکستان میں جو لکھا ہے کہ پاکستان کی سرکاری زبان اردو ہوگی۔ مگر کہاں۔ وہی انگلش ہے ۔اس بدیسی زبان کی اتنی حاکمیت اور اہمیت ہے کہ اب بھی ہمارا بیشتر کورس انگریزی میں ہے ۔جس کو پڑھنے کے لئے ہم لوگ مجبور ہیں۔ جب یہ صورتِ حال ہے کہ ہر شعبہ میں انگریزی در آئی ہے اور باوجود آئین کی شق کے ہم انگریزی زبان کا برا بول نہیں سکتے تو پھر اسی کو قانون سازی کر کے سرکاری اور بھرپور درجہ دیں۔لکھ دیں کہ آئندہ سے ارضِ وطن کی سرکاری اور تعلیمی زبان انگریزی ہوگی۔اردو کی بات ہے تو اس پرآئین کے حوالے سے عمل درآمد نہیں ہوا۔ پھر علاوہ ازیں اور بہت سی شقیں ہیں جن پر اب تلک عمل نہیں کیا گیا۔ مگر انگریزی کو سرکاری زبان بنا دینے کی شق پر راتوں رات عمل ہوگا۔ کیونکہ ہمارے ہاں کالے رنگ کے انگریز بہت ہیں جن کو سفید گورے اور چٹے انگلش بولنے والے اپنے پیچھے ہمارے سروں پر مسلط کر گئے ہیں۔اردو کی حمایت میں اتنا کچھ لکھا جا چکا ہے کہ اب تو پین میں روشنائی بلکہ سیاہی ختم ہی ہو گئی ہے۔ اتنی تقریریں ہوئی ہیں کہ زبانیں تھک گئی ہیں۔ اتنی کتابیں لکھی گئی ہیں کہ ان کو کوئی پڑھتا ہی نہیں کہ اردو کو ذریعہ ¿ تعلیم بنا¶ اور اردو کو سرکاری زبان بنایا جائے ۔جب یہ حالت ہے کہ ہم افسروں کی موجودگی میں افسرشاہی کے ماتحت رہ کر انگریز کی زبان انگلش کو ان حاکموں کے لب و دہن سے کھینچ کر باہر نہیں نکال سکتے تو پھرشکست تسلیم کرلینے میں کیا حر ج ہے ۔ہمارے انتظامی ڈھانچے کے حاکم جانتے ہیں کہ ہمارا انگریزی کے ساتھ کوئی لینا دینا نہیں ہے۔ مگر پھر بھی روز بروز باوجود مخالفت کے یہ لوگ انگریزی زبان سے اتنے محبت کرنے والے ہیں کہ سکولوں کالجوں میں انگلش زیادہ سے زیادہ ہو رہی ہے ۔وہی احساسِ کمتری جو پہلے تھا انگریزی کی موجودگی میںبدستور قائم ہے اور اس میں ہم زیادہ لوگ روز کے حساب سے تھوک در تھوک اور جوق در جوک مبتلا ہو رہے ہیں۔قومیں اس طرح ترقی ہرگز بھی نہیں کرتیں۔یہ بات تو تسلیم شدہ ہے کہ جو ممالک دنیا میں ترقی کی دوڑمیں آگے آگے ہیں وہا ںان کی اپنی قومی زبان خواہ جو بھی ہے وہ اختیار کی گئی ہے ۔تعلیم اسی زبان میں ہے اور سرکاری فائلیں اور دوسرے تیسرے کام انھیںکی زبان میں انجام دیئے جاتے ہیں۔یہ باتیں اب پرانی ہو چکی ہیں۔ کون کون سے ملک کی مثال دی جائے۔ سب ترقی کرنے والے اپنی زبان میں پڑھ لکھ کر ترقی کر گئے۔ مگر ہم دوسری زبان جو غیر زبان ہے اس میں ڈگریاں لے کر بھی وہی کورے کے کورے رہے۔ نہ تو ہمارے ہاں کوئی سائنس دان پیدا ہوتا ہے اور نہ کوئی بڑی شخصیت جنم لیتی ہے ۔جو جو بھی اردو زبان کی حمایت میں بولتا ہے وہ اپنا وقت ضائع کر تا ہے ۔