پاکستان کے معاشی اِستحکام کو جاننے اورر سمجھنے کے لئے روپے کے مقابلے دیگر ممالک کی کرنسیوں کا شرح تبادلہ بھی ایک کسوٹی (پیمانہ) ہے جس پر نگاہ رکھتے ہوئے معاشی شماریات کے ماہرین اِس بات کو خوش آئند قرار دے رہے ہیں کہ امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں بہتری آ رہی ہے بالخصوص گذشتہ کئی ہفتوں سے اضافے کا رجحان اِس بات کا بیان اور مثبت اشارہ ہے کہ پاکستان کے معاشی فیصلے کے اچھے نتائج برآمد ہو رہے ہیں اور اگر یہ سلسلہ جاری رہا تو روپیہ مزید مستحکم ہوگا۔ ذہن نشین رہے کہ پشاور کی کرنسی (ضرب صرافہ) مارکیٹ میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی کرنسی میں رواں برس اگست کے اختتام سے لے کر نومبر کی دس تاریخ تک ساڑھے نو روپے جیسا غیرمعمولی اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور یہ اضافہ اوسط ہے جبکہ ایک موقع پر دس روپے جیسی بہتری بھی آئی تھی۔ اگست کے اختتامی دنوں میں ایک ڈالر کی قیمت 168روپے 43پیسے تھی جو بہتر ہو کر 158روپے 91پیسے ہو چکی ہے۔ فروری دوہزاربیس میں ڈالر کی قیمت 154روپے کے لگ بھگ تھی تاہم اس کے بعد روپے کی قیمت میں بے تحاشا کمی آئی اور ڈالر مقامی کرنسی کے مقابلے میں 168روپے کی سطح سے بھی تجاوز کر گیا تھا۔ ڈالر کے مقابلے میں پاکستانی روپے کی قدر میں کمی نے ایک جانب ملکی درآمدات کو مہنگا کیا تو دوسری جانب اس کی وجہ سے مہنگائی کی شرح میں بھی اضافہ ہوا ہے کیونکہ بیشتر اجناس و اشیاءدرآمد ہوتی ہیں۔ کرنسی (ضرب صرافہ) کاروبار سے وابستہ افراد اور ماہرین معیشت روپے کی قدر میں بہتری کو حکومت کی جانب سے لئے گئے اقدامات اور کچھ مثبت معاشی اشارئیوں سے منسوب کرتے ہیں۔خوشخبری اپنی جگہ اہم ہے اور اگرچہ اِس سے عام آدمی کی زندگی میں فوری تبدیلی (بہتری) نہیں آئے گی لیکن پہلی اکتوبر سے اب تک ڈالر اور روپے کی قدر دیکھی جائے تو روپے کی قدر میں تین اعشاریہ ایک فیصد اضافہ دیکھنے میں آیا ہے اور پاکستانی روپیہ ایشیا میں تیسرے نمبر پر ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر میں اضافہ کرنے والی کرنسی بن چکا ہے یعنی پاکستانی روپیہ جس طرح اپنی قدر بنا رہا ہے اُس لحاظ سے درجہ بندی میں اِسے نمایاں مقام حاصل ہوا ہے۔ بہتر کارکردگی کا مظاہرہ کرنے والی دیگر کرنسیوں میں انڈونیشیا اور جنوبی کوریا شامل ہیں جنہوں نے کورونا وبا کے پہلے حملے کے بعد پاکستان سے بہتر وقعت دکھائی ہے۔ قابل ذکر ہے کہ انڈونیشین کرنسی نے اس عرصے کے دوران ڈالر کے مقابلے میں اپنی قدر میں ساڑھے چار فیصد اضافہ کیا تو جنوبی کوریا کی کرنسی میں امریکی ڈالر کے مقابلے میں چھ اعشاریہ تین فیصد اضافہ ہوا۔ پاکستانی روپے کی قدر میں اضافے کی کئی وجوہات میں شامل ہے کہ گزشتہ چند ماہ میں قومی درآمدات میں کمی‘ ترسیلات زر اور برآمدات میں اضافہ‘ روشن ڈیجیٹل اکاو¿نٹ کے ذریعے بیرون ملک مقیم پاکستانیوں کی جانب سے سرمایہ کاری اور غیرملکی قرضوں کی ادائیگی کا مو¿خر ہونا شامل ہے۔ درحقیقت درآمدات میں مسلسل کمی نے مقامی کرنسی کو بہت زیادہ سہارا دیا جس کی وجہ سے بیرون ملک ڈالر کی منتقلی میں کمی دیکھنے میں آئی ہے لیکن یہ وقتی رجحان ہو سکتا ہے البتہ برآمدات میں ہونے والے اضافے کو مستقل کرنے اور بیرون ملک سے ترسیلات زر (2 ارب ڈالر ماہانہ) میں اضافے کرنٹ اکاو¿نٹ یعنی ’جاری کھاتے‘ میں بہتری مستقل کرنے کے لئے حکومت کو طرزحکمرانی کا ایک ایسا ماڈل (عملی مظاہرہ) پیش کرنا ہوگا‘ جس سے نہ صرف اندرون بلکہ بیرون ملک پاکستانیوں کا وفاقی حکومت پر اعتماد میں اضافہ ہو اور اُنہیں یہ احساس نہ ہو کہ جو پیسہ وہ درآمد ہونے والی اشیاءنہ خرید کر بچا رہے ہیں اور بیرون ملک پاکستانیوں کو یقین ہو کہ جو پیسہ وہ بھیج رہے ہیں اُس کا استعمال برسراقتدار جماعت کے فیصلہ ساز اپنی مراعات اور آسائشوں کی نذر نہیں کریں گے تو حب الوطنی کا وسیع المعانی (غیرمشروط و مستقل) مظاہرہ دیکھنے میں آ سکتا ہے۔ فی الوقت دو ارب ماہانہ ترسیلات زر کا سالانہ حجم تیس ارب ڈالر تک بڑھنے کا امکان ہے جو بیرونی تجارت کے شعبے میں مثبت پیش رفت ہے کیونکہ روپے کی قدر میں اضافہ اُس وقت ہوتا ہے جب درآمدات میں کمی ہو۔ ترسیلات زر اور برآمدات میں اضافہ ہو اور بیرون ممالک پاکستانیوں سے آنے والی سرمایہ کاری اور غیر ملکی قرضوں کی ادائیگی مو¿خر رہیں۔ اِس سلسلے میں روشن نامی ”ڈیجیٹل اکاو¿نٹ“ نامی سکیم نے بھی بیرون ملک پاکستانیوں کو ملک میں سرمایہ کاری کرنے میں کافی مدد دی ہے جس کی وجہ سے ان کی جانب سے کی جانے والی سرمایہ کاری میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آ رہا ہے۔