بند گلی کی سیا ست

محسوس ہوتاہے کہ وطن عزیز کی سیا ست ایک بار پھر بند گلی میں دا خل ہو گئی ہے آگے دیوار ہے پیچھے کھائی کھود ی جا رہی ہے نہ یہاں سے آگے جانے کا راستہ ہے نہ پیچھے مڑنے کی گنجا ئش ہے اب لکھنے والوں کی مثال کسی کھیل پر روان تبصرہ کرنے والوں کی طرح ہے تبصرہ جو بھی ہو میدان کے کھلا ڑی تبصرہ سن کر اپنی پو زیشن نہیں بدلتے کھلا ڑی کھیل میں مشغول ہوتا ہے یہاں سیاستدان اپنی سیا ست میں منہمک ہیں لکھنے والے کیا لکھتے ہیں بولنے والے کیا کہتے ہیں سیاستدانوں کی توجہ اس طرف نہیں ہوتی ‘پا کستان 2020میں چار اہم مسائل سے دو چار ہے پہلا مسئلہ معیشت کا ہے ، دوسرا مسئلہ دہشت گردی کا ہے ، تیسرا مسئلہ توا نائی کے بحران کا ہے اور چو تھا مسئلہ نظم و نسق کے بحران کا ہے یہ چاروں مسائل ایسے ہیں جن پر فوری توجہ کی ضرورت ہے تاہم سیاسی منظر نا مے پر ان میں سے کسی بھی مسئلے کا ذکر ہمیں نہیں ملتا سیا ست دانوں کے بیا نات پر حزب مخالف کی تحریک اور گلگت بلتستان کے انتخابات حا وی نظر آتے ہیں دونوں کا تعلق ملکی مسائل یا ان کے حل سے نہیں ہے۔ 1990ءکی دہا ئی میں ایسی تحریکیں دیکھی ہیں 1970ءکی دہائی میں بھی ایسی ایک تحریک دیکھی ہے 2014ءمیں بھی ” استعفیٰ دو“ والا دھرنا گزرا ہے اس دھرنے میں طا ہر القادری اور شیخ رشید جیسے قادر لکلا م خطیبوں کی بے مثال تقریروں کے کلپ دستیاب ہیں ان میں فصا حت و بلا غت عروج پر ہے لیکن نتیجہ صفر ہے گلگت بلتستان کے انتخا بات کو بھی ہم آنکھیں بند کر کے نا ن ایشو کہہ سکتے ہیں وہاں تحریک انصاف کی حکومت آئی تو کیا فرق پڑے گا ظاہر ہے کوئی فرق نہیں پڑے گا کسی اور کی حکومت آئی تب بھی حالات جوں کے توں رہیںگے فرق کوئی نہیں پڑنے والا ان انتخا بات کا ملکی سیا ست پر کوئی اثر نہیں پڑے گا لا ہور اور کراچی کا ووٹر دیا مر اور گانچھے کے نتا ئج سے کوئی اثر قبول نہیں کرے گا چنا نچہ ملکی سیاست پر حا وی دونوں مو ضو عات حقیقت میں نان ایشو یا لا یعنی باتیں ہیں ملک کے مستقبل سے ان کا کوئی تعلق نہیں ۔ 2006ءمیں بنگلہ دیش میں بحران آیا تو عدلیہ نے قومی مصا لحت کرائی ہمارے ہاں عدلیہ کو اس طرح کا کردار نہیں دیا جا تا یہاں سیاست جب بھی بند گلی میں داخل ہو تی ہے تو پھر مشکلات بڑھ جاتی ہیں اور کئی دفعہ اس کے نتائج جمہوریت اور سیاست کے حق میںاچھے سامنے نہیں آتے۔ اسلئے وقت ہے کہ سیاست کوبند گلی میں دھکیلنے کی بجائے مفاہمت اور سو جھ بوجھ سے معاملات طے ہونے دیا جائے اور حقیقت یہ ہے کہ عوام اس کی توقع بھی کرتے ہیں کیونکہ سیاسی ہیجان سے عوامی مسائل حل ہونے کی بجائے مزید پیچیدہ ہوتے جاتے ہیں۔