ادب کا ٹیچر

 کلاس روم میں اداکاری بھی کرنا پڑتی ہے ۔اس کی وجہ یہ ہے کہ ادب کا ٹیچر اداکار ہونا چاہئے ورنہ تو بعض باتیں سٹوڈنٹس کے پلے نہیں پڑتیں۔ سائنس کے مضامین میں اداکاری کا کام نہیں۔ کیونکہ وہاں انسان کے رویے اور اس کی حرکات وسکنات کے ساتھ کسی کا کوئی سروکار نہیں ہوتا۔وہاں تو بس دو اور دو چارہوتا ہے ۔پھر دو اور دو چار ہی ہوتا ہے زیادہ نہیں۔ اگر زیادہ نہیں تو تھوڑا اوپربھی نہیں۔ لگی بندھی باتیں ہوتی ہیں ۔کیونکہ ہر مضمون کے اپنے تقاضے ہوتے ہیں ۔ ادب کے علاوہ دوسرے مضامین میں پڑھاتے وقت اداکاری کی ضرورت نہیں پڑتی۔ کیونکہ ان مضامین میں انسان کے رویوں کی نقل کے ساتھ عام طور سے نہ تو ٹیچر کا واسطہ ہوتا ہے اور نہ ہی طالب علموں کا۔ ادب خواہ اردو ہو یا کسی اور زبان میں دو اور دو چار ہی نہیں ہوتے کچھ اوپر بھی ہوتے ہیں اور پھر پانچ بھی ہوتے ہیں ۔کیونکہ ڈرامہ جس صنف کانام ہے اس کا تعلق براہِ راست ادب کے ساتھ ہے ۔مقصد یہ ہوا کہ ادب میں کہانی ہوتی ہے ۔ کہانی کرداروں کی حرکات و جنبش کانام ہے۔ ان کے منہ سے ادا ہوئے مکالموں کا نام ہے ۔اسی کی وجہ سے کہانی آگے بڑھتی ہے۔جہاں ادب ہوگا وہاں کہانی ہوگی ۔پھر جہاںکہانی ہوگی وہاں کردار ہوں گے ۔اگر کردار ہیں تو ان کی مکالموں کی ادائیگی خود ٹیچر کو کرناپڑتی ہے ۔اس وقت اداکاری کی ضرورت پیش آتی ہے ۔خواہ استاد مرد ہے تو اسے عورت کے ڈائیلاگ کی ڈیلیوری کے وقت اس کردار جیسی حرکتیں بھی کرنا ہوتی ہیں ۔اکثر ٹیچر تو نہیں کرتے یا شاید نہیں کرپاتے یا شرماتے ہیں ۔مگر ہم نے تو جب بھی یہ موقع آیا دھڑلے سے کسی خاتون کی ایکٹنگ بھی کرڈالی ۔سٹوڈنس ہنسے اور محظوظ ہوئے ۔جس کی وجہ سے بات ان کے دل و دماغ میں ٹھاک سے بیٹھ گئی ۔پھر استاد کا مقصد بھی تو یہی ہوتا ہے۔ اس کو اپنے طالب علموں کے دل دماغ میں اپنے الفاظ یوں بٹھانا ہوتے ہیں جیسے ترکان ہتھوڑی کے ساتھ کیل کو لکڑی میں ٹھونکتا ہے ۔عام طور سے اداکاری نہ کریں تو کچھ معاملہ نہیں ۔کام چل جاتا ہے ۔عام طور سے کام ہی تو چلایا جاتا ہے ۔کلاس روم ہو یا ہمارے معاشرے کا کوئی اور میدان ہو ہر جگہ بس کام چلایا جاتا ہے ۔مگر جو قومیں کام ہی چلاتی ہیں ٹائم پاس کر تی ہیں ان پر دوسری قومیں آکر حکومت کرتی ہیں۔ وہ سرحدیں عبور کر کے آئیں یا دل و دماغ کے دروازوں سے آئیں سیکنڈ ایئر کی اردو لازمی کی کتاب میں ایک افسانہ ”مائیں“ کے نام سے شامل ہے ۔ احمد ندیم قاسمی نے لکھا ہے۔احمد ندیم قاسمی کے بارے میں یہ بات یاد رکھنے کے قابل ہے کہ انھوں نے اپنے افسانو ںمیں پاکستان کے دیہات کی زندگی پیش کی ہے ۔چلتے چلتے یہ بھی قابلِ توجہ ہے کہ دوسری طرف اردو کے مایہ ناز افسانہ نگار پریم چند نے ہندوستان کے دیہات کی روزمرہ کی زندگی کو اپنے افسانوں میں پیش کیا ہے ۔اداکاری کیا ہے ۔خواہ ٹی وی میں ہو یا فلم ہو یا ٹیلی ڈراموں میں ہو یا سٹیج پر یا کلاس روم کے لیکچر میں ہو۔ اپنے آپ کو بھلا دینے کا نام ہے ۔تھوڑی دیر کےلئے اپنے نام و نسب اور اپنی ذات کو ایک طرف رکھ کر اس کردار میں ڈھل جانے کانام ہے ۔جو آرٹسٹ کے پاس سکرپٹ میں لکھا ہوا ہاتھ میں تھاما ہوا ہوتا ہے ۔اس کردار کے مکالمے یاد کر کے اس کے مکالمے بولنا۔ پھرایسے انداز میں کہ جیسے وہ مشہور اداکار نہیں بلکہ وہی اصلی کردار ہے جس کو نقلی سمجھ کر اداکار نے اصلی بنا کر یوں پیش کیا ہے کہ دیکھنے والے عش عش کر بیٹھے۔ڈراموں کا ذکر آیا تو اداکاروں کے ان گنت نام ہیں جو ہمارے ماتھے کا جھومر ہیں ۔کسی ایک کا ذکر بھی نہیں کیا جاسکتا او رتمام کے تمام کا تذکرہ بھی ممکن نہیں ۔کیونکہ ایسے میں اندیشہ یہ ہے کہ کوئی نام رہ نہ جائے ۔ کیونکہ فنِ اداکاری کے حوالے سے فلمی دنیاالگ ہے اور زبان کافرق اوراداکاری کا مذکور جدا ہے ۔افسانہ” مائیں “میں دو خواتین ہمسائیاں روز آپس میں جھگڑتی ہیں ۔ صبح کا آغاز ان کی لڑائی سے ہوتا ہے ۔مزے کاافسانہ ہے اگر بغیر کاٹ چھانٹ کے کہیں سے مل جائے ۔ ورنہ تو کورس میں ہی جو موجودہے وہ بھی ذائقہ کےلئے کافی ہے ۔جو ٹیچر اپنی ذات کو پہلے رکھتے ہیں اورکلاس میں دوستانہ ماحول قائم نہیں رکھتے ان کے مرتبہ و مقام میں کمی تو نہیں ہوتی ۔مگر ان کو اچھا ٹیچر کہنے کے لئے زبان ہچکچاتی ہے ۔دوبارہ عرض ہے کہ استاد کی کلاس روم میں اداکاری کی بات کا تعلق ادب کے مضمون کے ساتھ ہے خواہ جس زبان میں ہو۔بعض باتیں طلبا و طالبات کو سمجھ نہیں آتی ۔ اس موقع پر کتاب میں لکھے مکالمے کو ادا کرتے وقت اس کردار کی نقل کرنا پڑتی ہے ۔ اس اداسے کلاس روم کے سٹوڈنٹس فوراً مطلب کو اچک لیتے ہیں ۔اس لئے اردو کا مطلب یہ نہیں کہ یہ آسان مضمون ہے ۔میرا تو پکا خیال ہے کہ اردو اتنی زیادہ مشکل ہے جتنی زیادہ انگریزی آسان ہے ۔اداکاری کو چھوڑیں صرف اردو زبان کو لیں انگریزی سے زیادہ گراں ہے ۔عام طور سے جن حضرات کو جان کاری حاصل نہیں وہ اردو کے بارے میں اس غلط فہمی کا یا خوش فہمی کا شکار ہیں کہ یہ پڑھنے پڑھانے کے معاملے میں آسان ہے ۔