اشارے کنائے اور قرائن

کورونا وبا کی دوسری لہر سے نمٹنے کے لئے ’سخت فیصلے‘ طلب کردہ قومی اجلاس (سولہ نومبر) کے بعد اعلان ہوں گے لیکن اشارے کنائیوں اور قرائن سے عیاں ہے کہ تعلیمی اداروں کی بندش یقینی ہے تاہم ایسا کوئی بھی نظام وضع نہیں کیا گیا جو متبادل ذرائع سے درس و تدریس کے عمل کو جاری رکھے۔ اعدادوشمار اپنی جگہ تشویشناک حقیقت کی خبر دے رہے ہیں کہ پاکستان میں مسلسل دو روز (تیرہ اور چودہ نومبر) کے دوران ہر دن دو ہزار سے زیادہ نئے متاثرین سامنے آ رہے ہیں اور اگر یہ سلسلہ اِسی طرح جاری رہتا ہے تو ہسپتال بھر جائیں گے۔ کورونا کی دوسری لہر کے لئے دوسری مرتبہ ’لاک ڈاو¿ن‘ کرنے والا پاکستان واحد ایسا ملک نہیں ہوگا بلکہ کئی ملکوں میں نئے متاثرین اور اموات میں مسلسل اضافہ کو مدنظر رکھتے ہوئے پاکستان سے زیادہ سخت اقدامات و انتظامات دیکھنے میں آ رہے ہیں جیسا کہ امریکی ریاست اوریگن میں سمارٹ لاک ڈاو¿ن کو سخت کر دیا گیا ہے۔ امریکہ کی جانز ہاپکنز یونیورسٹی دسمبر 2019ءسے کورونا وبا کے عالمی اعدادوشمار مرتب کر رہی ہے جس کے مطابق دنیا بھر میں کورونا سے متاثرہ مریضوں کی تعداد پانچ کروڑ تیس لاکھ سے زیادہ جبکہ عالمی سطح پر تیرہ لاکھ سے زیادہ اموات ہو چکی ہیں اُور متاثرین کی تعداد و ہلاکتوں کا یہ سلسلہ جاری ہے۔پاکستان میں کورونا وبا پر نظر رکھنے اور اِس سے روک تھام کے لئے قائم ادارے (این سی او سی) کے مطابق ملک میں تیرہ نومبر کے روز دو ہزار سے زیادہ (2165) افراد میں کورونا کی تشخیص ہوئی جبکہ مذکورہ چوبیس گھنٹوں میں سترہ افراد ہلاک ہوئے اور اب تک پاکستان میں کورونا سے متاثرہ زیر علاج متاثرین (ایکٹیو کیسز) کی تعداد چوبیس ہزار 938 ہے۔ ذہن نشین رہے کہ پاکستان میں یومیہ تیس ہزار سے زیادہ افراد کے کورونا ٹیسٹ ہو رہے ہیں۔ تیرہ نومبر کے روز مجموعی طور پر چونتیس ہزار پانچ سو پینتیس افراد کے ٹیسٹ کئے گئے اور جیسے جیسے کورونا ٹیسٹنگ کی سہولیات میں اضافہ کیا جا رہا ہے ویسے ویسے متاثرہ افراد کا شمار بھی بڑھ رہا ہے۔ ماہرین کے مطابق موسم سرما میں چونکہ نظام تنفس کی بیماریاں پھیلنے کا زیادہ خطرہ ہوتا ہے‘ اس لئے کورونا کے مزید متاثرین کا خدشہ موجود ہے۔ بارہ نومبر کو پشاور ہائی کورٹ کے چیف جسٹس وقار سیٹھ اور تیرہ نومبر کے روز سندھ اسمبلی کے رکن جام مدد علی کورونا وائرس سےجاں بحق ہوئے‘ جس سے ثابت ہوا کہ کورونا وبا سے صرف عام لوگ ہی نہیں بلکہ اُن خواص کو بھی خطرہ ہے‘ جنہوں کے گرد حفاظتی حصار رہتا ہے اور جنہیں خوردونوش اور آب و ہوا کے حوالے سے بہترین ماحول میسر ہے۔ پاکستان میں ماہ¿ جولائی سے نومبر تک شرح اموات میں بتدریج اضافہ ہو رہا ہے۔ جس کی تصدیق کرتے ہوئے وقافی وزیر برائے منصوبہ بندی اسد عمر نے اپنے ٹوئیٹر پیغام میں کہا ہے کہ ”رواں سال اکتوبر کے وسط سے اب تک پاکستان میں کووڈ کے متاثرین کی تعداد میں تین گنا اضافہ ہوا ہے اور کسی بڑے نقصان سے بچنے کے لئے قواعد و ضوابط کی پابندی کی سختی سے ضرورت ہے۔ کورونا جہاں دنیا بھر میں اموات بانٹ رہا ہے وہیں اس وائرس سے کم متاثر سمجھے جانے والے خطے جنوبی ایشیا میں بھی اس کی دوسری لہر تباہ کن ثابت ہو رہی ہے تو دانشمندی اِسی میں ہے کہ احتیاط کی جائے اور غیرضروری مہم جوئی سے گریز کیا جائے۔ایک کروڑ سے زیادہ کورونا متاثرین کے ساتھ امریکہ دنیا کا پہلا ملک ہے جبکہ 80 لاکھ سے زائد متاثرین کے ساتھ بھارت دوسرے نمبر ہے جہاں ایک لاکھ تیس ہزار سے افراد کورونا کے سبب ہلاک ہو چکے ہیں۔ بنگلہ دیش نے کورونا وبا کی دوسری لہر کے پیش نظر اُنیس دسمبر تک تمام تعلیمی ادارے بند کر دیئے ہیں اور ایسا کرنے کی وجہ ماہرین کی جانب سے یہ کہنا ہے کہ جنوبی ایشیا میں سردیوں کے موسم میں کورونا وائرس کی دوسری لہر اُٹھے گی اور اگر احتیاط نہ کی گئی تو نئی لہر زیادہ مہلک ثابت ہوگی۔ پاکستان کی تعلیمی اداروں سے متعلق حکمت عملی غیرضروری طور پر ’راز‘ میں رکھی گئی ہے۔ نیشنل کمانڈ اینڈ آپریشن سنٹر (این سی او سی) نے تعلیمی اداروں میں بڑھتے ہوئے کورونا کیسز کی طرف بھی اشارہ کرتے ہوئے موسم سرما کے تعطیلات کو جلدی اور طویل کرنے کی تجویز دی ہے جس پر حتمی فیصلہ کل (سولہ نومبر) کے روز وفاقی وزیر برائے تعلیم مختلف صوبوں کے وزرا سے مشاورت کے بعد کریں گے اور تعلیمی اداروں سے متعلق آئندہ کا لائحہ عمل طے کیا جائے گا۔ تازہ ترین تجاویز میں کھانے پینے کے مقامات بشمول ریسٹورانٹس رات دس بجے تک بند کرنے‘ سینیما‘ تھیٹر‘ مذہبی مقامات اورمزارات دن ڈھلنے پر بند کرنے پر زور دیا گیا ہے اور یہ تجویز بھی زیرغور ہے کہ تجارتی مراکز اور بازار جلد بند کئے جائیں‘ یقینا فیصلہ سازوں کو دیکھنا ہوگا کہ کوورنا وبا کی وجہ سے پہلے لاک ڈاو¿ن کے باعث اشیائے خوردونوش کی نقل و حمل کا نظام جس طرح متاثر ہوا تھا اُور جس کی وجہ سے مہنگائی کی شرح بھی بڑھی تھی تو دوسری مرتبہ لاک ڈاو¿ن لاگو کرنے سے تجارتی و کاروباری اُور درسی و تدریسی سرگرمیوں کو استثنیٰ دینے کی صورت کیا ہو سکتی ہے اور کورونا وبا سے بچنے کے لئے ’ایس او پیز‘ پر عمل درآمد نہ کرنے والوں کی سزا پورے ملک کو نہیں دی جانی چاہئے۔