شہر میں روز بروز رش زیادہ ہو رہا ہے ۔شہر کے اندر گلیوں بازاروں میں تو بھیڑ بھاڑ تھی مگر اب تو شہر کے باہر کے علاقوں میں بھی خوب ہجوم جمع رہتا ہے ۔کہیں ٹریفک بلاک ہوجائے اور وہاں آدمی جلدی میں ہو توبڑی مصیبت کا سامنا کرناپڑتا ہے۔خاص طور پر اس وقت جب آدمی کے سو کام ہوں اور وہ گاڑی میںہو۔ اس وقت ٹریفک میں الجھ جاناگویا بارہ سنگھے کا جنگل میں کسی درخت یاجھاڑیوں میں اپنے سینگ الجھا دینا ہے ۔مگر یہ رش مصنوعی ہے ۔یہ ہماری ناسمجھی کی وجہ سے ہے ۔ہمیں رول اصول معلوم نہیں ۔ ٹریفک کے بہا¶ کو ہم قدر کی نگاہ سے نہیں دیکھتے کہ یہ نہ رکے اور چلتا رہے ۔ہم اپنی گاڑی جہاں تک ہو سکے جہاں ہوسکے ہجوم میں کھڑی کر کے غائب ہو جاتے ہیں ۔سائیڈ پر گاڑی کھڑی ہو گی وہ رش ہوگا کہ ہارن پہ ہارن سننے کو ملیں گے۔ مگر گاڑی والا اپنی گاڑی کھڑی کر کے کہیں پاس ہی موجود ہو گا۔ وہاں بازار میں اتنا رش تھا کہ یوں لگ رہا تھا کہ ہر آدمی کو جلدی ہے ۔پھر شہر والے صبر بھی تو نہیں کرتے ۔صبر کے نام سے تو گویا واقف ہی نہیں ہیں۔ ہر آدمی اپنا راستہ لینا چاہتا ہے ۔ہر شخص اپنی راہ نکالنا چاہتا ہے خواہ جس طرح بھی نکلے ۔ایسے میں وہ غلطی کے اوپر ایک اور غلطی کرتا ہے ۔جس کی وجہ سے اس ایک اکیلے کی وجہ سے بازار کی سڑک بند ہو جاتی ہےں۔ہر ایک کو گاڑی ملی ہے کسی کوبائیک ملی ہے اور وہ دوڑ رہا ہے ۔ہر طرح سے ہر جگہ سے ہر لحاظ سے وہ بس راستہ لیناچاہتاہے ۔اسے کسی کی کوئی پروا نہیں کہ کوئی دوسرا بھی اس دنیا میں ہے جس کا اس سڑک پر اتنا ہی حق ہے جتناکہ میرا ہے ۔مگر ا س بات کی اس کو پروا کہاں ۔سڑک پر ٹریفک الجھا ہوا تھا گاڑیاں بائیکیں رکشے چنگ چی پیدل سب لوگ گھرے ہوئے تھے ۔ کسی ایک کو بھی راستہ نہیں مل رہاتھا۔ یہ کہانی شہر کے باہر دور دراز کے بازاروں کی ہے ۔ اندرونِ شہر کا تو ذکر ہی کیا۔مگر اب تو شہر ہر طرف سے پھیل رہاہے اتنا کہ ہر طرف پشاور کا اندرون علاقہ معلوم ہوتا ہے ۔اس رش میں جب کچھ نہیں بن پایا تو معلوم ہوا کہ اس تنگ سڑک پر ایک طرف کسی بے فکرے نے اپنی موٹر سائیکل کسی دکان کے باہر کھڑی کی تھی ۔ جس کی وجہ سے ٹریفک بلا ک ہو چکا تھا ۔بائیک کا مالک کہیں سامنے کھڑاہو گا او رمسکرا رہا ہوگا کہ میری وجہ سے دیکھو یہ لوگ کتنے تنگ ہیں ۔اتنے میں جب کچھ علاج نظر نہ آیا توچار آدمی آئے اور تالالگی ہوئی موٹر بائیک کو اٹھا کر ایک طرف کوڑے کے ڈھیر پر لے جاکر کھڑا کر دیا۔ٹریفک کی روانی میںخلل دور ہو چکا تھا۔سب اپنی اپنی منزل کی جانب روانہ ہونے لگے تھے ۔خاتون ِ خانہ میرے ساتھ بائیک پرپیچھے بیٹھ کڑھتی جلتی رہی ۔اتنے میں اس کی طرح طرح کی باتیں میںنے سنی ۔کہنے لگی کہ اب تو ہر طرف رش ہو گیا ہے ۔میںنے کہا یہ رش ہو نہیں گیا ۔سب کچھ مصنوعی ہے۔ یہ ماحول لوگوں نے اپنی بے صبری کی وجہ سے اور ٹریفک کے اصول پر کاربند نہ ہونے کے کارن تباہ کر رکھا ہے ۔اب پشاور تو مٹھی میں آجانے والا شہر ہے ۔اتنابڑا شہر تو نہیں کہ جیسے لاہور راولپنڈی اور کراچی وغیرہ ہیں۔ یہاں تو چھوٹے سے شہر میں کسی کو نہ اپنے اوپر کنٹرول ہے اور نہ گاڑی پر کنٹرول ہے ۔بلکہ یوں کہو تو اچھا ہے کہ بہت کم لوگوں کو گاڑی چلانا بھی آتا ہے ۔ایسے میں اس شہر کا حال بد تر نہیں ہوگا تو کیا ہوگا۔ اب تو ٹریفک پولیس والوں نے اپنا ایف ایم چینل بھی کھول دیا ہے ۔تاکہ پبلک کو ٹریفک قوانین کے بارے میں واقفیت حاصل ہو مگر یہ لوگ اپنے ماں باپ کی نہیں سنتے نصیحت پر کان نہیں دھرتے تو ایف ایم ریڈیو کیا سنیں گے۔ مگر خدا کرے کہ سن لیں اور ٹریفک پولیس والوں کے لئے انھوں نے جو مسئلے بنا رکھے ہیں ان مسئلوں کا حل نکلے اور شہر کا گلا جو گھونٹ رکھا ہے توشہر آزادی سے سانس لینے کے قابل بھی ہو سکے ۔ایسے میں تو یہ نیا ڈوبتی دکھائی دے رہی ہے ۔ ٹریفک کے اصولوں کی آگاہی کے لئے مہم چلائی جانی چاہئے۔ سب سے پہلے تو صبر کا درس دیں۔لیٹ سہی مگر گھر پہنچ تو جائیں گے۔ اگر جلدی کی تو حادثے کی صورت میں گھر کے بجائے سیدھا شہرِ خموشاں کا رخ نہ کرناپڑے ۔مگر ان کو کون سمجھائے ۔ ہر آدمی کو کہیں جلدی پہنچنا ہے ۔وہ نکلنا چاہتا ہے ۔سب کو پیچھے چھوڑ کر آگے بڑھنا چاہتا ہے ۔پیچھے والے کیا کریں گے جن کو اس نے غیر قانونی طور پر جُل دے کر آگے نکلنے کو سبقت دی ۔سو ایسے میں اگر حال یہ ہے کہ تو اس شہر کی کوئی کل جو سیدھی نہیں اس کا سیدھا ہونا بہت مشکل نظر آتا ہے ۔حکام بھی تو ان کی حرکات سے عاجز آچکے ہیں ۔وہ کیاکریں اور کیا نہ کریں۔ پبلک کو کس طرح سمجھائیں کہ آپ کو جلدی کا مظاہرہ نہیں کرنا چاہئے۔ آپ کی جلدی خود آپ کے لئے موت کا سامان بن سکتی ہے۔مگر یہ سمجھیں تو سہی جانیں تو سہی۔