کورونا کی نئی لہر نے دنیا کے ساتھ ساتھ پاکستان کو بھی اپنی لپیٹ میں لے رکھا ہے جس کے نتیجے میں اب تک عالمی سطح پرپانچ لاکھ جب کہ پاکستان میں دوہزار سے زائد افرادکے متاثر ہونے کی اطلاعات سامنے آ چکی ہیں ۔کوروناکی دوسری لہر جس کا آغاز بھی پہلی لہر کی طرح چین ہی سے ہواہے کے متعلق طبی ماہرین کا خیال ہے کہ اگر وباءکی ا س نئی لہرسے بچاﺅ کے لئے ضروری حفاظتی تدابیر اختیار نہ کی گئیں تو یہ پہلی لہر سے بھی زیادہ تباہ کن ثابت ہو سکتی ہے‘پاکستان کو کورونا سے نمٹنے میں جن مشکلات کا سامنا کرناپڑ رہا ہے اس میں اندرونی اور بیرونی دونوں طرح کے عوامل شامل ہیں ‘اندرونی طور پر پاکستان کوکوروناسے نمٹنے کی راہ میں جو سب سے بڑی رکاوٹ پیش آ رہی ہے اس کا تعلق پاکستان کی کثرت آبادی سے ہے۔ پاکستان آبادی کے لحاظ سے دنیا کا پانچواں گنجان آبا دملک ہے‘22کروڑ آبادی کا حامل ملک ہونے کی وجہ سے یہاں کورونا جیسے متعدی امراض کے پھیلاﺅ کومکمل طور پرروکنا یا اس پرسوفیصد قابو پانا تقریباً ناممکن امر ہے۔کثرت آبادی بظاہرکوئی عیب نہیں ہے بلکہ اگر اسے طاقت سمجھ کر منظم انداز میں ایک وژن کے تحت بامقصد طریقے سے استعمال میں لایا جائے تو اس ہجوم کو ایک توانا اور منظم قوم بنا کر خود کوایک بڑی عالمی طاقت منوانے میں اسے ایک موثر ہتھیار کے طور پر استعمال کیاجاسکتا ہے ‘کثیر آبادی کو چین کی طرح اپنی طاقت بنانے کےلئے کبھی بھی کسی نے کوئی سنجیدہ کوشش نہیں کی جسکا خمیازہ آج ہم کئی مسائل کی صورت میں بھگت رہے ہیں‘لوگوں کی طرز زندگی ،آزادانہ میل جول،سماجی روابط،اجتماعی معاشرت ،غمی خوشی کی بے ہنگم تقریبات اور سب سے بڑھ کرلوگوں کے عمومی رویئے وہ دوسرا بڑا عامل ہے جو ہمارے ہاںکورونا کے پھیلاﺅ میں مددگار ثابت ہورہاہے‘اسی طرح جہالت،کم علمی ،توہمات ،فرسودہ نظام تعلیم اور بے مقصدیت وہ تیسرا بڑا عامل ہے جو معاشرے میں کورونا کے مضبوط پنجے گاڑھنے کا باعث بن رہاہے‘یہ کتنے افسوس کی بات ہے کہ ہمارے ہاں آج بھی ایک ایساطبقہ موجو دہے جو سرے سے کورونا پر یقین ہی نہیں رکھتا یہ لوگ اپنی عادت سے مجبور ہوکر ہر بڑے مسئلے کا ذمہ دار خودکوسمجھنے اور اپنی اصلاح خود کرنے کی بجائے اپنی کمزوریوں اور خامیوں کا ذمہ دار دوسروں کوٹھہرا کر سمجھتے ہیں کہ ایسا کر کے وہ اپنے فرائض سے سبکدوش ہو گئے ہیں حالانکہ اس سوچ کا حقیقت سے دور کا بھی کوئی واسطہ نہیں ہے‘یہ بات بارہا ثابت ہونے کے باوجود کہ کورونا آپس کے میل جول،ہاتھ ملانے اورگلے ملنے سے ایک دوسرے کو منتقل ہوتا ہے لیکن پھر بھی ہمارے ہاں نہ صرف غمی خوشی کی تقاریب اسی نہج پر جاری ہیں جوعام حالات میں جاری رہتی ہیں بلکہ ان میںطے شدہ گائیڈ لائینز کی دھجیاں اس لاپرواہی سے اڑائی جا رہی ہیں جس کی مثال کسی گئے گزرے معاشرے میں بھی ڈھونڈنے سے نہیں ملے گی ‘اگر ہم نے کورونا کے بڑھتے ہوئے کیسز کوسنجیدگی سے نہ لیا تو ہم من حیث القوم کسی بڑی مصیبت سے بھی دوچار ہوسکتے ہیں ‘کوروناکی حالیہ نئی لہر کے حوالے سے ہمارے ہاں ایک غلط فہمی یہ بھی پائی جاتی ہے کہ پہلی لہر میں جو لوگ کوروناسے صحت یاب ہو چکے ہیں انہیں یہ مرض دوبارہ لگنے کاخطرہ نہیں ہے ۔لہٰذا اس ضمن میں حکومت کے ساتھ ساتھ دیگر تمام متعلقہ اداروں بالخصوص میڈیا، علماءکرام،اساتذہ اور فلاحی وسماجی تنظیموں نیز سیاسی جماعتوں سے بھی توقع ہے کہ وہ آگے بڑھ کر اس عالمی وباءسے نمٹنے میں اپنا قومی کردار ادا کریں گے ۔